پشاور حملہ: والدین تحقیقات سے غیر مطمئن
پشاور: پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے نتیجے میں جان کی بازی ہارنے والے بچوں کے والدین حکومت کی جانب سے حملے کی تحقیقات پر غیر مطمئن ہیں اور انھوں نے سانحہ پشاور کے ایک سال مکمل ہونے پر منعقد کی جانے والی تمام سرکاری تقریبات کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی ہے.
والدین نے اس حوالے سے بھی خبردار کیا کہ اگر 16 دسمبر تک سانحہ پشاور کی جوڈیشل انوسٹی گیشن کا اعلان نہ کیا گیا تو وہ تمام حکومتی ایوارڈز واپس کردیں گے.
پشاور پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اے پی ایس شہداء فورم کے صدر افضل خان کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث 4 افراد کی پھانسی، دہشت گردی کے واقعے کا شکار ہونے والوں کے والدین کو مطمئن نہیں کرسکتی اور انھیں مجرموں کی شناخت کے حوالے سے ہمیشہ اندھیرے میں رکھا گیا۔
مزید پڑھیں:پشاوراسکول حملے کے 4 دہشت گردوں کو پھانسی
ان کا مزید کہنا تھا کہ والدین کس طرح سے حکومت کے موقف پر یقین کرسکتے ہیں جبکہ آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد درج کی گئی ایف آئی آر میں بھی جھول تھے.
افضل خان کا کہنا تھا کہ ملزمان کی تعداد اور شناخت میں بہت تضاد ہے، ساتھ ہی انھوں نے دعویٰ کیا کہ مجرموں کو پھانسی صرف والدین کے درمیان پھیلی بد امنی اور تحفظات کو کم کرنے کے لیے دی گئی.
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی حملہ آور اور ان کے پیچھے موجود عناصر کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا.
انھوں نے کہا کہ حملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام والدین کا ایک اہم مطالبہ تھا اور اگر اسے قبول نہیں کیا گیا تو وہ تمام ایوارڈز اور ان کے بچوں کی بہادری پر دی گئی حکومتی مالی معاونت واپس کردیں گے.
اے پی ایس حملے میں جان کی بازی ہارنے والے دیگر بچوں کے والدین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے افضل خان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے خاندانوں کو اس بات کی امید تھی کہ حملے میں ملوث افراد کو انصاف تک پہنچایا جائے گا، لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا.
انھوں نے مزید کہا کہ نہ تو صوبائی اور نہ ہی وفاقی حکومت غمزدہ والدین سے کیے گئے عہد کو پورا کرنے میں سنجیدگی دکھا رہی ہے.
اے پی ایس شہداء فورم کے صدر کا کہنا تھا کہ یہ حملہ کوئی دہشت گردی کا معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ اس نے پوری قوم کو ایک شاک میں مبتلا کردیا، جس کے دوران 153 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جن میں زیادہ تر اسکول کے بچے تھے.
افضل خان نے کہا، 'ہم حملے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے حوالے سے حکومتی کوششوں سے مطمئن نہیں ہیں.'
یہ بھی پڑھیں:پشاور اسکول حملے میں 132 بچوں سمیت 141 افراد ہلاک
انھوں نے آرمی پبلک اسکول میں جان کی بازی ہارنے والے بچوں کے نام پر اسکولوں کو نام دیئے جانے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سلسلے میں مشہور اور مستند اداروں کو نہیں چنا گیا اور آرمی پبلک اسکول کے تقریباً 24 طلبا کو نظر انداز کردیا گیا.
اے پی ایس شہداء فورم کے صدر نے دعویٰ کیا کہ 45 سے زائد خاندانوں نے مطالبات قبول نہ کیے جانے کی صورت میں 16 دسمبر کو منعقد کی گئی تمام سرکاری تقریبات کے بائیکاٹ اور حکومت کی جانب سے دیئے گئے ایوارڈز اور مالی معاونت کی واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔
انھوں نے خبردار کیا کہ والدین اپنی شکایات کو عالمی سطح پر اٹھائیں گے۔
جب ان سے حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو افضل خان کا کہنا تھا کہ یہ بھی ایک آپشن ہوسکتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے حکومت نے اے پی ایس حملے میں جان کی بازی ہارنے والے بچوں کی بہادری کو تسلیم کرنے کے لیے ابھی تک کوئی میموریل بھی تعمیر نہیں کیا۔
انھوں نے کہا، 'ہمیں اپنے بچوں کی لاشیں اور سرٹیفیکیٹس کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔'
آخر میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے والدین کو وفاقی سطح پر ان کی آواز بلند کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم انھوں نے ایک دن کے لیے بھی دھرنا نہیں دیا۔
یہ خبر 8 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔