امریکا: ’نسل پرست، شدت پسندوں سے بڑے دہشت گرد‘
واشنگٹن: پیرس حملوں کے بعد امریکا میں ایک جانب جہاں ریپبلکن پارٹی کے سیاستدان ملک میں دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر شامی پناہ گزینوں کے داخلے پر پابندی کی بات کر رہے ہیں، تو دوسری جانب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے امریکا کو بیرونی دہشت گردوں سے نہیں بلکہ اندرونی دہشت گردوں سے زیادہ خطرہ ہے۔
تھنک ٹینک ’نیو امریکا فاؤنڈیشن‘ کی رپورٹ کے مطابق 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد امریکی سرزمین پر ہونے والے دہشت گرد حملوں میں سے دو تہائی (66 فیصد) حملے بالادستی اور بڑھائی کے دعویدار گورے انتہا پسندوں نے کیے۔
رپورٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق نسل پرست 'گوروں' کے حملوں میں 48 افراد ہلاک ہوئے جبکہ دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں میں 26 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔
نیو امریکا فاؤنڈیشن کے سینئر پروگرام ایسوسی ایٹ ڈیوڈ اسٹرمین نے امریکی نیوز ویب سائٹ ’واکس‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عام تاثر یہ ہے کہ امریکا میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں بیرونی دہشت گردوں کا ہاتھ ہوتا ہے، جس کی بڑی وجہ یہ ہے نائن الیون حملوں میں بیرونی دہشت گرد ملوث تھے، لیکن اس کے بعد امریکی سرزمین پر رونما ہونے والے دہشت گرد واقعات کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے اب تک دہشت گردی کے 330 واقعات میں سے 80 فیصد واقعات میں امریکی شہری ہی ملوث تھے۔
نیو امریکا فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملوں کے بعد امریکا میں دہشت گردی کے 26 خونریز واقعات پیش آئے، جن میں سے 7 میں اسلامی شدت پسند ملوث پائے گئے اور دیگر 19 واقعات میں دائیں بازو کے انتہا پسند ملوث تھے، جبکہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس میں بیرونی دہشت گرد ملوث پائے گئے ہوں۔
تاہم اگر دہشت گردی کے ان واقعات میں ملوث افراد کی گرفتاری کے حوالے سے موجود اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو حیران کن نتائج سامنے آتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 2001 کے تباہ کن حملے کے امریکا میں عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس سے منسلک دیگر شدت پسند تنظیموں کے لیے کام کرنے کے الزام میں 314 گرفتاریاں عمل میں آئیں جبکہ دائیں بازو کے صرف 183 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔
واضح رہے کہ ان اعداد و شمار میں امریکی ریاست کولوراڈو کے فیملی پلاننگ سینٹر میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے اور تعصب کے خلاف امریکی سیاہ فاموں کے احتجاج ’بلیک لائیوز میٹر‘ میں گورے امریکی کی فائرنگ کے واقعات کو شامل نہیں کیا گیا، جن میں متعدد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
ڈیوڈ اسٹرمین کا مزید کہنا تھا کہ گرفتاریوں میں تضاد کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دائیں بازو کے دہشت گردوں کے حوالے سے اکثر قابل اعتماد معلومات ملنا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ حکومت ہمیشہ ان حملوں کو دہشت گردی کا نام نہیں دیتی، جبکہ دہشت گرد تنظیموں کی ہر کارروائی کو دہشت گردی کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : داعش کے خلاف ایک سال،امریکا کتنا کامیاب ہوا؟
خیال رہے کہ 11 ستمبر 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے تباہ کن حملے میں مسلمانوں سمیت 3 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
امریکا نے ان حملوں کا بہانہ بنا کر دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پہلے افغانستان اور پھر عراق پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کے علاوہ لاکھوں معصوم اور بے گناہ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
امریکا کی اس بربریت کے بعد دہشت گردی میں کمی کے بجائے اس میں مزید اضافہ ہوگیا اور القاعدہ کے علاوہ کئی دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آگئیں جس نے کئی ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے لیا اور آج پاکستان، عراق اور افغانستان سمیت کئی اسلامی ممالک اس آگ میں جل رہے ہیں۔