• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:40pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:40pm

سپریم کورٹ:بچوں کی بڑھتی اموات پر ازخود نوٹس

شائع November 28, 2015
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ملک میں ایک شخص اور خاص طور پر بچوں کی صحت کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورت حال کی وضاحت کرے۔

بچوں کی بڑھتی ہوئی اموات پر سامنے آنے والی رپورٹس، خاص طور پر دیہی علاقوں میں ڈائیریا، نمونیا اور ہیپاٹائٹس سی جیسی مہلک بیماروں کے بڑھنے کے حوالے سے از خود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس انور طہیر جمالی نے وفاقی ہیلتھ سیکریٹری ایوب شیخ اور صوبائی ہیلتھ سیکریٹریز کو حکم دیا ہے کہ وہ وضاحت کرے کہ ملک میں صحت کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر حکومت نے آنکھیں کیو بند کررکھی ہیں۔

ملک میں صحت کے حوالے سے عدالت کی توجہ مانسہرہ کے ایک رہائشی نے چیف جسٹس کو لکھی جانے والی درخواست کے ذریعے کروائی ہے۔

درخواست کے ساتھ اردو اخبارات میں شائع ہونے والے دو کالم بھی منسلک کئے گئے ہیں، جن میں ایک اوریا مقبول جان کی جانب سے 13 نومبر اور دوسرا جاوید چوہدری کی جانب سے 19 نومبر کو لکھا گیا تھا۔

درخواست کا جائزہ لینے کے بعد جیف جسٹس نے سپریم کورٹ رجسٹرار کو حکم دیا کہ اس درخواست کو از خود پٹیشن میں تبدیل کردیا جائے، اور وفاقی و صوبائی ہیلتھ سیکریٹریز کو نوٹسز جاری کیے جائیں۔

انھیں مذکورہ کالم کے حوالے سے اپنے جوابات جمع کروانے کی ہدایات بھی کی گئی ہے۔

مذکورہ کیس کی سماعت دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ہوگی۔

خیال رہے کہ ایک کالم میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ نمانیہ اور ڈائیریز کی وجہ سے سال 2014 میں 144،000 بچے موت کا شکار ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان بچوں کی اموات کے حوالے سے دنیا میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ دونوں بیماروں سے ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد سے زیادہ ہے۔

کالم کے مصنف نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ غریب ممالک جیسے ایتھوپیا، اینگولا، سوڈان، یوگانڈا، نائیجیریا اور تنزانیہ میں بھی بچوں کی صحت کے حوالے سے پاکستان سے بہت بہتر ہیں۔

مصنف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بچوں کی اموات میں اضافے کی وجہ ٹاؤن اور دیہاتوں میں ابتدائی صحت کی سہولیات کا فقدان ہے لیکن یہ انتہائی صورت حال انتہائی خطرناک ہونے کے باوجود قومی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

مصنف نے وفاقی حکومت کو ملک میں صحت کی سہولیات کو نظر انداز کرتے ہوئے ترقیاتی اسکیموں پر کثیر رقم خرچ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ سال پمز ہسپتال میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر تابش حاضر کا کہنا تھا کہ نمانیہ کے باعث پر ملک میں ہر 30 سیکنڈ میں ایک بچہ موت کا شکار ہوجاتا ہے۔

دوسرے کالم میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ مصر جہاں 8 سے10 فیصد آبادی یا 20 لاکھ افراد ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں مبتلا ہے، کے بعد پاکستان اس فہرست میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

مصنف نے وزیر اعظم نواز شریف سے اس حوالے سے فوری مداخلت کرنے اور متعلقہ اداروں کو مذکورہ مرض کے لیے ادویات کی تیاری کے لیے مقامی اداروں کو لائسنس جاری کرنے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Abdullah Nov 28, 2015 03:31pm
بلکل صحیح بات ہے پولیو کے لئے تو اتنا شور ہے مگر سرکاری ہسپتالوں کا پرسان حال، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تعوان و دیگر چیزوں میں جو انسانی ضیاع ہو رہا ہے وہ اندھی حکومت کو نظر نہیں آتا۔ پولیومہم کو مشکوک بنانے میں ہماری حکومت کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ حکومت اور تو کسی چیز کا خیال رکھتی نہیں صرف پولیو ہی کیوں۔۔۔۔۔ دال میں کچھ کالا ہے۔۔۔۔۔یا پوری دال ہی کالی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025