مشرف غداری کیس: دوبارہ تحقیقات کا حکم
اسلام آباد: خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف، سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور موجودہ وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی زاہد حامد کے خلاف قائم غداری کے مقدمے کی تحقیقات دوبارہ کروائے اور اس کی رپورٹ 17 دسمبر کو پیش کرے۔
خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے جج جسٹس فیصل عرب نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نمائندوں کو شامل کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ اگر جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات 17 دسمبر تک مکمل نہ کی ہوں تو تحقیقات کی پیش رفت کے حوالے سے رپورٹ آئندہ کی سماعت میں پیش کی جائے۔
خیال رہے کہ چار صفات پر مشتمل یہ حکم وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائے جانے والے بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ مقدمے کی تحقیقات دوبارہ کروانے کے لیے تیار ہیں۔
وفاقی حکومت نے مذکورہ بیان ہائی کورٹ میں شوکت عزیز، زاہد حامد اور عبدالحمید ڈوگر کی جانب سے خصوصی عدالت کے نومبر 2014 کے حکم نامے کے خلاف دائر کی جانے والی درخواست کے جواب میں پیش کیا تھا۔
مذکورہ فیصلے میں انھیں غداری کے مقدمے میں شریک ملزم قرار دیا گیا تھا۔
خصوصی عدالت کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ پرویز مشرف کے مرکزی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کی جانب سے ایم آئی، آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندوں کو تحقیقاتی ٹیم میں شامل کرنے کی درخواست وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) کے 1974 کے ایکٹ کے برعکس ہے۔
ادھر پروسیکیوشن ٹیم کے سربراہ بیرسٹر محمد اکرام شیخ نے زور دیا کہ ایکٹ کے تحت غداری ایک شیڈول جرم میں سے ہے اور صرف ایف آئی اے کا ادارہ ہی اس مقدمے کی تفتیش کرسکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ ’ہم اس بات کی وضاحت کردیں کہ تحقیقاتی ٹیم کا کام صرف شواہد جمع کرنا اور انھیں عدالت میں پیش کرنا ہے‘۔
واقعے (3 نومبر، 2007 کو ایمرجنسی کے نفاذ) کو مد نظر رکھتے ہوئے، جو کہ کمیشن کے سامنے افراد کے دیئے گئے بیانات کے مطابق ایک جرم ہے، تحقیقاتی ٹیم کو اجازت ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے کسی بھی عہدیدار کا بیان ریکارڈ کرے یا ایسی کوئی بھی دستاویز جوکہ کسی شخص نے پیش کی ہو اور جس کا بیان ریکارڈ کرنا مقصود ہو۔
مذکورہ عمل میں تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے واقعے کی مطابقت سے پیش کی جانے والی دستاویزات کا موازنہ بھی کیا جائے تاکہ سچ سامنے آسکے۔
تبصرے (1) بند ہیں