کیا ہم محمد عامر کے بارے میں غلط ہیں؟
شہریار خان اپنی کتاب Cricket Cauldron میں ایک سوال اٹھاتے ہیں جس کا جواب نہایت غور طلب ہے۔
وہ یہ پوچھتے ہیں کہ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث تینوں کھلاڑیوں کی اس شرمناک حرکت پر انہیں کس نے مجبور کیا۔ کیا وہ خود ہی ایسے تھے یا پھر ہمارا معاشرہ اس کے لیے ذمہ دار ہے جس میں کرپشن نہایت عام ہے۔
محمد عامر کی کرکٹ میں واپسی کو اب تقریباً ایک سال ہو گیا ہے۔ ان کی کرکٹ میں واپسی تب ممکن ہوئی جب آئی سی سی نے اپنے قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے پابند شدہ کھلاڑیوں کو اپنی پابندی کے اختتام سے قبل ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی تھی۔
پاکستانیوں نے محمد عامر کی کرکٹ میں واپسی کا خیر مقدم کیا۔ کچھ عرصے بعد ستمبر میں ان پر عائد پابندی گھٹا کر انہیں بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔
اور جیسا کہ توقع تھی، نوجوان لیفٹ آرم فاسٹ باؤلر نے گریڈ 2 کی سطح پر متاثر کرنے میں ذرا بھی وقت نہیں لیا۔ ان کی زبردست باؤلنگ نے انہیں فوراً ہی سوئی سدرن گیس کمپنی کا کنٹریکٹ دلوا دیا۔
23 سالہ کھلاڑی کی بہترین پرفارمنس اور قائدِ اعظم ٹرافی کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں لی گئی کئی وکٹوں نے بین الاقوامی کرکٹ میں ان کی واپسی کا مقدمہ مضبوط کیا ہے۔ اب تک وہ قومی ٹیم میں تو شامل نہیں ہوئے ہیں، لیکن بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں انہیں شامل کر لیا گیا ہے۔
پڑھیے: سلمان بٹ اور محمد آصف سے ہمدردی کیوں نہیں
مگر ان کی واپسی پر پہلے دن سے ہی موجودہ قومی کرکٹرز نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
گذشتہ ماہ اطلاعات گردش میں تھیں کہ محمد حفیظ نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں محمد عامر کے ساتھ پریکٹس کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ پاکستانی اوپنر احمد شہزاد نے بھی اکیڈمی میں باؤلر کی موجودگی پر تحفظات کا اظہار کیا۔
پاکستان کے اسٹار بیٹسمین حفیظ نے واضح لفظوں میں محمد عامر کے ساتھ کھیلنے سے انکار کرتے ہوئے بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کا کنٹریکٹ مسترد کر دیا۔ چٹاگانگ وائکنگز نے حفیظ کو آفر دینے کی تردید کی، لیکن انہوں نے بعد میں کہا کہ وہ ایسے شخص کے ساتھ ڈریسنگ روم میں نہیں رہ سکتے جو پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا ہو۔
حفیظ کے واضح الفاظ میں انکار کے بعد ابھی آگ ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھی کہ اگلے ہی دن انگلش مڈل آرڈر بیٹسمین کیون پیٹرسن نے کہا کہ محمد عامر کو ان کے داغدار ماضی کی وجہ سے دوبارہ بین الاقوامی کرکٹ میں جگہ نہیں دینی چاہیے۔
اب ہم شہریار خان کے سوال کی طرف لوٹتے ہیں؛ اس کی ذمہ داری ان تینوں کھلاڑیوں اور اس معاشرے، دونوں پر ہے۔
90 کی دہائی میں پاکستان کی نیک نامی ویسے ہی پانی کی طرح بہائی جا رہی تھی۔ 2000 میں جاری ہونے والی جسٹس ملک قیوم رپورٹ کے مطابق پاکستانی کرکٹ کے بڑے نام کرپشن میں ملوث تھے۔
مگر ان کی قابلیت اور ان کی پوزیشن کی وجہ سے ان کرپٹ کرکٹرز کو صرف کچھ جرمانے اور چند میچز کی پابندی دی گئی۔
جسٹس قیوم نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وسیم اکرم کے لیے ان کا 'نرم گوشہ' ان کے فیصلے پر اثرانداز ہوا۔
تو اس صورت میں یہ پاکستان کا عامر اور دوسروں کے لیے 'نرم گوشہ' تھا جس کی وجہ سے مظہر مجید نامی ایجنٹ کے ذریعے جرم کے بعد بھی فیصلہ تبدیل ہوا۔ یہ تینوں کھلاڑی جانتے تھے کہ وہ بھی اسی طرح بچ جائیں گے جس طرح ان کے بچپن کے ہیروز بچ نکلے تھے۔
2010 کی گرمیوں میں تینوں ہی کھلاڑی اپنے کریئرز کی بلندیوں پر تھے۔ انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف ٹی 20 وائٹ واش اور اس کے خلاف دو دہائیوں میں پاکستان کی پہلی ٹیسٹ فتح میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
خاص طور پر عامر تو ہر پاکستانی کرکٹ شائق کے دل کی دھڑکن بن گئے تھے۔ انہیں نہ صرف پاکستان میں پسند کیا جاتا تھا، بلکہ ہر اس جگہ جہاں پر کرکٹ پسند کیا جاتا ہے۔
اگر پاکستان کرکٹ بورڈ نے یا عدالتوں نے اس صدی کے آغاز پر ہی سخت اقدامات اٹھائے ہوتے، تو ملک کو اس بدنامی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ مگر یہ سازش صرف اداروں کی نااہلی یا سستی کی وجہ سے بھی نہیں ہے۔
اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے سامنے آنے سے پہلے بھی کئی بک میکرز نے قومی کرکٹرز کو پھانسنے کی کوشش کی تھی۔ درحقیقت پاکستان کے کئی کھلاڑیوں کو 2009 کے سری لنکن دورے کے دوران ہندوستانی بک میکرز نے بڑی بڑی پیشکش کیں، لیکن انہوں نے ایسے کسی بھی کام کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔
عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ عامر نے اپنی سزا پوری کر لی ہے اور اب وہ قانون کے تحت دوبارہ کھیلنے کے لیے آزاد ہیں۔ مگر قومی مفاد غیر روایتی اقدامات کا تقاضہ کرتے ہیں۔
ملک کے وسیع تر کرکٹ مفادات کا تقاضہ یہ ہے کہ محمد عامر پر ہمیشہ کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند کر دیے جائیں۔ اس سے ایک مثال قائم ہوگی۔ عامر نے جرم اس لیے کیا تھا کیونکہ اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں تھی۔
ہماری کرکٹ کی تاریخ میچ اور اسپاٹ فکسنگ کے اسکینڈلز سے بھرپور ہے۔ یہی وقت ہے کہ سخت اقدامات اٹھاتے ہوئے پاکستان کرکٹ کو مزید بدنامی سے بچایا جائے۔
تبصرے (10) بند ہیں