• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

ترکی نے پیٹھ میں خنجر گھونپا، روسی صدر

شائع November 24, 2015
طیارہ شام اور ترکی کے سرحد کے قریب انطاکیہ کے قریب نشانہ بنایا گیا۔۔۔ فوٹو: اسکرین شاٹ
طیارہ شام اور ترکی کے سرحد کے قریب انطاکیہ کے قریب نشانہ بنایا گیا۔۔۔ فوٹو: اسکرین شاٹ
روسی وزارت دفاع کے مطابق طیارے کو زمین سے نشانہ بنایا گیا۔—رائٹرز فائل فوٹو۔
روسی وزارت دفاع کے مطابق طیارے کو زمین سے نشانہ بنایا گیا۔—رائٹرز فائل فوٹو۔

ماسکو:صدر ولادمیر پیوٹن نے شامی سرحد پر ترکی کی جانب سے روسی لڑاکا طیارہ گرانے کو ’ پیٹھ میں خنجر گھونپنے‘ سے تعبیر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ واقعہ کے ماسکو-انقرہ تعلقات پر ’سنگین نتائج‘ مرتب ہوں گے۔

ترکی نے منگل کو فضائی حدود کی مبینہ خلاف ورزی پر شامی سرحد کے قریب روس کا ایک جنگی طیارہ مار گرایا۔

روسی وزارت دفاع نے بیان میں ایک لڑاکا طیارہ SU-24 شام کی سرحد پر گرنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ جہاز کے تباہ ہونے سے قبل پائلٹ باحفاظت اس سے نکل چکے تھے۔

قطری ٹی وی الجزیرہ نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ ترک حکام نے پائلٹ کو حراست میں لے لیا۔

روسی خبر رساں ادارے آر ٹی نےترک فوج کے حوالے سے بتایا کہ طیارے کو نشانہ بنانے سے قبل 10 بار وارننگ دی گئی۔ 5 منٹ تک ہر 30 سیکنڈ بعد وارننگ کے باوجود فضائی خلاف ورزی پر دو F-16 طیاروں نے اسے نشانہ بنایا۔

پیوٹن نے آج اردن کے شاہ عبداللہ دوئم سے ملاقات کے دوران واقعہ پر ردعمل میں مزید کہا ’روسی کی کمر میں یہ خنجر دہشت گردوں کے ساتھیوں نے گھونپا۔

پیوٹن مصر ہیں کہ طیارہ شام خطے میں پرواز کر رہا تھا انہوں نے واقعہ کا محتاط تجزیہ کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ’ترک طیارے کے حملے میں گرنے والا روسی جٹ شامی علاقے پر پرواز کر رہا تھا اور وہ کسی صورت ترکی کیلئے خطرہ نہیں تھا‘۔

’ایک ترک ایف-سولہ نے فضا سے فضا مار کرنے والے میزائل کی مدد سے ہماری جٹ کو شامی خطے میں گرایا۔ روسی طیارہ ترک سرحد سے چار کلو میٹر دور شام میں گر کر تباہ ہوا‘۔

دوسری جانب، ترک وزیر اعظم احمد داؤد اوگلو نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اپنی سرحدوں کی کسی خلاف ورزی پر کارروائی ان کی ذمہ داری ہے۔

’ سب کو پتہ ہونا چاہئے کہ کسی بھی جانب سے فضائی یا زمینی سرحدوں کی خلاف ورزی پر کوئی بھی قدم اٹھانا ہماری قومی ذمہ داری اور عالمی حق ہے‘۔

ادھر، امریکی دفاعی حکام نے واضح کیا ہے کہ اس واقعہ میں وہ ہرگز ملوث نہیں۔

امریکی دفاعی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنےکی شرط پر کہا ’ ہمارے ترک اتحادیوں نے مطلع کیا کہ منگل کو سرحدی خلاف ورزی پر انہوں نے ایک روسی فوجی طیارہ مار گرایا‘۔

پنٹاگون حکام گزشتہ مہینے روسی جٹ طیاروں کی جانب سے ترک فضائی حدود کی خلاف ورزیوں پر مبنی حکمت عملی کی مذمت کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ ترکی اس سے قبل مارچ 2014 میں بھی شام کے ایک طیارے کو سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر تباہ کر چکا ہے۔

خیال رہے کہ شام اور عراق میں وسیع رقبے پر شدت تنظیم داعش نے قبضہ کرکے جون 2014 میں خود ساختہ 'دولۃاسلامیۃ' کے قیام اور ابوبکر البغدادی کو خلیفہ بنانے کا اعلان کیا.

گزشتہ برس امریکا اور مغربی ممالک نے پہلے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے باغیوں کی مدد کی بعد ازاں داعش کے شام اور عراق کے وسیع حصے پر قبضے کے خلاف فضائی کارروائی کا آغاز کیا.

البتہ ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود داعش کا شام اور عراق کے علاقوں پر ہونے والے قبضے کو ختم نہیں کیا جا سکا.

مزید پڑھیں : شام میں روسی کارروائی،امریکا کو تشویش

دو ماہ قبل روس بھی اس جنگ میں شامل ہوا اور اس کے جنگی جہازوں نے ابتداء میں بشار الاسد کے خلاف بغاوت کرنے والے گروہوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، جس پر عالمی تنقید کے بعد روس نے داعش کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا.

10 روز قبل یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں شام میں جنگ بندی اور سیاسی اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے اجلاس ہوا۔

اس اجلاس میں امریکا اور روس سمیت 19 ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: شام: جنگ بندی، سیاسی اقتدارکی منتقلی کے شیڈول پر اتفاق

روس کی تجویز پر ہی عبوری حکومت کے قیام اور انتخابات اتفاق کیا گیا، اجلاس میں شام میں 6 ماہ کے دوران عبوری حکومت قائم اور 18 ماہ میں انتخابات کرانے پر اتفاق ہوا۔

خیال رہے کہ 10 روز قبل ہی فرانس کے دارالحکومت پیرس میں حملوں میں 129 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کہ ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی جس کے بعد فرانس نے شام میں فضائی کارروائی تیز کر دی ہے اور اپنا بحری بیڑہ بھی شامل بھجوا دیا ہے جس سے داعش کے خلاف فرانس کے 38 طیارے حملے کر رہے ہیں.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024