پیرس میں 6 مقامات پر حملے، 129 افراد ہلاک
پیرس: فرانس کے دارالحکومت پیرس میں دہشت گردوں نے 6 مقامات پر حملے کیے، دھماکوں اور فائرنگ کے یکے بعد دیگرے واقعات میں 129 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ حملوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرلی.
پیرس میں 6 مقامات پر حملوں میں 129 افراد ہلاک اور 350 سے زائد زخمی
مشرقی پیرس میں ایک کنسرٹ ہال کو نشانہ بنایا گیا جہاں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں
دوسرا حملہ فٹبال اسٹیڈیم کے باہر ہوا جہاں 3 دھماکے کیے گئے، اسٹیڈیم میں فرانس کے صدر بھی موجود تھے
پیزا سینٹر، جاپانی ہوٹل، کمبوڈیا کے ریسٹورنٹ سمیت دیگر پر حملے کیے گئے
پیرس میں کرفیو نافذ کر کے 1500 فوجی اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا
فرانس میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ملک کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو بند کرنے کا حکم
حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی
تصاویر دیکھیں : فرانس میں 6 مقامات پر حملے
کنسرٹ ہال میں حملہ
پہلا واقعہ پیرس کے مشرقی حصے میں کنسرٹ ہال میں پیش آیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ بٹاکلان کنسرٹ ہال میں حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے متعدد افراد کو ہلاک کیا۔
کنسرٹ ہال میں 1500 سے زائد افراد موجود تھے جبکہ ہال میں امریکی بینڈ 'ایگلز آف ڈیتھ میٹل' (Eagles of Death Metal) کا شو ہو رہا تھا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ کنسرٹ ہال میں یرغمال بنائے جانے والے شہریوں کو بازیاب کرانے کے لیے پولیس کی بھاری نفری طلب کی گئی۔
پولیس کی آمد کے ساتھ ہی حملہ آوروں نے کنسرٹ ہال میں موجود افراد پر فائرنگ شروع کر دی تھی۔
فرانسیسی پولیس کے مطابق شہریوں کی بازیابی کے لیے کیے جانے والے ریسکیو آپریشن کے دوران ہال میں مسلح افراد نے فائرنگ کی جس سے 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس کی جوابی کارروائی میں 4 حملہ آور بھی ہلاک ہوئے۔
ان میں سے 3 حملہ آوروں نے خود کش جیکٹس کے کے ذریعے دھماکے کیے جبکہ ایک کو پولیس نے فائرنگ سے نشانہ بنایا۔
اسٹیڈیم پر خود کش حملہ، فرانس کے صدر محفوظ
دوسرا نشانہ پیرس کے شمالی حصے میں قائم فٹبال اسٹیڈیم کو بنایا گیا۔
فرانس کے نیشنل اسٹیڈیم کے باہر 3 زور دار دھماکے سنے گئے، جس وقت دھماکے ہوئے اس وقت فرانس کے صدر فرانسو اولاندے اپنی کابینہ کے ہمراہ فرانس اور جرمنی کا دوستانہ میچ دیکھ رہے تھے۔
خود کش دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 5 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
تاہم سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اسٹیڈیم کے باہر 3 بم دھماکے ہوئے جن میں سے ایک مبینہ طور پر خودکش تھا.
پولیس نے بتایا کہ جس وقت اسٹیڈیم کے باہر دھماکے ہوئے یہاں فرانس اور جرمنی کی فٹبال ٹیموں کے درمیان دوستانہ میچ جاری تھا،
فرانسیسی صدر فرانسو اولاندے جو اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کے لیے موجود تھے، جنھیں دھماکوں کے فوری بعد اسٹیڈیم سے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
بعد ازاں حکام نے اسٹیڈیم کو بھی شائقین سے خالی کروا لیا.
جاپانی ہوٹل پر حملہ
تیسرا حملہ پیرس کے مشرقی حصے میں قائم ایک ہوٹل کے قریب ہوا۔
حملہ آوروں نے جس ہوٹل کو نشانہ بنایا وہ جاپانی کھانوں کے لیے مشہور تھا۔
فائرنگ کے نتیجے میں ہوٹل کے قریب 18 افراد ہلاک ہوئے۔
عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کا نشانہ جاپانی ہوٹل تھا جبکہ ہوٹل کے قریب 2 سے 3 منٹ تک فائرنگ کی گئی۔
حملے کے بعد پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر ہوٹل جانے والے تمام راستوں کو بند کرکے اطراف کے علاقوں کو گھیرے میں لے لیا۔
کمبوڈیا کے ریسٹورنٹ پر حملہ
پیرس کے شمالی حصے میں کمبوڈیا کے ایک ریسٹورنٹ کے قریب بھی فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ ریسٹورنٹ کے باہر 30 سیکنڈز تک فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس وقت فائرنگ شروع ہوئی تمام افراد زمین پر لیٹ گئے، تاہم کچھ دیر بعد فائرنگ کی آوازیں آنا بند ہو گئیں۔
پیزا سینٹر پر حملہ
پیرس میں نشانہ بنائے گئے کنسرٹ ہال بٹکلان سے کچھ فاصلے پر واقع ایک پیزا سینٹر کے قریب بھی فائرنگ کی گئی۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ حملہ آوروں کے پاس جدید اسلحہ تھا جس سے وہ فائرنگ کر رہے تھے۔
فائرنگ سے 5 افراد ہلاک ہوئے جبکہ کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔
بلیورڈ والٹائر میں دھماکا
فرانس کے عدالتی ذرائع سے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق کنسرٹ ہال سے متصل بلیورڈ والٹائر میں بھی ایک دھماکا ہوا۔
دھماکا مبینہ طور پر ایک حملہ آور کی خود کش جیکٹ پھٹنے سے ہوا،تاہم اس کے نتیجے میں کسی شخص کے زخمی یا ہلاک ہونے کی فوری اطلاع سامنے نہیں آ سکی۔
پیرس میں کرفیو نافذ
فرانس کے صدر فرانسو اولاندے نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ملک کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے، یہ ایمرجنسی ملک میں 70 سال بعد دوبارہ لگائی گئی ہے.
حکومت نے دارالحکومت پیرس میں کرفیو نافذ کر دیا جبکہ پیرس میں مزید 1500 فوجیوں کو تعینات کردیا گیا.
پیرس حملوں کے بعد صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے فرانس کی وزارت داخلہ کے دفتر میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں فرانس کے صدر، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ موجود تھے۔
سرکاری بیان کے مطابق فرانسیسی صدر نے ترکی میں ہونے والی جی 20 سربراہی کانفرنس میں اپنی شرکت کو ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔
فرانس کے کاؤنٹر ٹیرارزم پراسیکیوٹر کے مطابق پیرس میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ۔
سیکیورٹی ذرائع نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
ایک سیکورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ 'میں صرف اتنا ہی بتا سکتا ہوں کہ یہ چارلی ہیبڈو سے بڑا حملہ ہے.'
ذمہ داری داعش نے قبول کی
دولت اسلامیہ برائے عراق و شام عرف داعش نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی.
شدت پسند تنظیم کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ صلیبی فرانس پر 8 مسلح افراد نے حملہ کیا۔
داعش نے فرانس کو نشانہ بنانے کی وجہ 'طویل صلیبی مہم' کو قرار دیا، جبکہ فرانس پر مزید حملے کرنے کی دھمکی بھی دی گئی.
شدت پسند تنظیم کی جانب سے بیان عربی اور فرانسیسی زبان میں جاری کیا گیا.
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے نشانہ بنائی گئی جگہوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا۔
داعش کا بیان میں یہ بھی کہنا تھا کہ فرانس، خلافت (شام اور عراق) میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ذمہ دار ہے۔
خیال رہے کہ شام اور عراق میں داعش کے فضائی کارروائیوں میں مصروف امریکی اتحاد میں فرانس بھی شامل ہے۔
داعش کی جانب سے بیان سامنے آنے سے قبل ہی فرانس کے صدر حملوں کی ذمہ داری داعش پر ڈال چکے ہیں.
بین الاقوامی رہنماؤں کی مذمت
دوسری جانب پیرس حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما، روس کے صدر ولادی میر پیوٹن، برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بانکی مون سمیت دیگر ممالک کے سربراہان نے حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں فرانسیسی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں.
پاکستان کی جانب سے بھی پیرس میں ہونے والے حملوں کی مذمت کی گئی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں فرانس کی عوام کے ساتھ ہیں ،
فرانس میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ بے گناہ افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی حمایت کریں گے۔
دیگر ممالک میں سیکیورٹی سخت
پیرس میں ہونے والے حملوں کے بعد امریکی پولیس نے نیویارک شہر میں ہائی الرٹ جاری کردیا، جبکہ بیلجیئم حکام نے اعلان کیا ہے کہ فرانس سے منسلک سرحد کی نگرانی بڑھا دی گئی ہے.
یورپ کے دیگر ممالک میں بھی ہوائی اڈوں، عوامی مقامات سمیت دیگر کی سیکیورٹی سخت کرنے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں سال جنوری میں پیرس ہی میں شدت پسندوں کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر چارلی ہیبڈو نامی میگزین کے دفتر اور ایک یہودی سپرمارکیٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا، ان واقعات میں 17 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
فرانسیسی پولیس نے مذکورہ حملے کے بعد کارروائی کرتے ہوئے متعدد حملہ آوروں کو ہلاک اور گرفتار کرلیا تھا۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ کچھ ماہ میں داعش میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے فرانس سے 500 سے زائد افراد نے شام اور عراق کا سفر کیا ہے، جبکہ حال ہی میں ان میں سے 250 افراد فرانس واپس لوٹے ہیں اور مزید 750 افراد داعش میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں