ڈرائیونگ لائسنس یا 'قتل کا لائسنس'؟
حقیقت میں یہ مسئلہ بہت بڑا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی ڈرائیونگ کی قابلیت کو جانچنا، کاغذات کی جانچ پڑتال اور پھر ڈرائیونگ لائسنس دینا یقیناً دودھ کی نہر کھودنے جیسا مشکل ہوگا۔
ترقی یافتہ ممالک میں چونکہ ایک عرصے سے اس کے لیے نظام قائم ہے، اس لیے وہاں پر 26 لاکھ لوگوں کو ایک ماہ میں لائسنس بنوانے کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہاں پر ڈرائیونگ لائسنس کے لیے درخواست دینے والے ہر شخص کا ایسا امتحان لیا جاتا ہے جس کا ہمارے لائسنس آفسز میں تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
میں ایک عرصے سے ڈنمارک میں مقیم ہوں۔ کراچی اور لاہور، جہاں ڈرائیونگ کرنا ایک نہایت تھکا دینے والا، خطرے سے بھرپور، اور اعصاب کی مضبوطی کا امتحان لینے والا کام ہے، اس کے مقابلے میں یہاں سڑک پر گاڑی چلانا نہایت آسان ہے، صرف اس لیے کہ یہاں پر ناتجربہ کار، غیر تربیت یافتہ، اور قانون کی پاسداری نہ کرنے والے لوگ گاڑی نہیں چلا سکتے۔ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا نسبتاً مشکل اور طویل مرحلہ ہوتا ہے، تاکہ سڑکوں پر جانی و مالی نقصانات کو کم سے کم رکھا جا سکے۔
ہر شخص اپنے ڈاکٹر سے صحت مند ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرتا ہے اور ساتھ میں اپنی تصاویر ڈاکٹر سے اٹیسٹ کروا کر ایک سیل بند لفافے میں ڈال کر بلدیہ کے دفتر میں ایک درخواست جمع کروا دیتا ہے۔ اس درخواست کے ساتھ کسی نجی ڈرائیونگ اسکول کی جانب سے نصاب ساتھ لگایا جاتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے کسی ڈرائیونگ اسکول سے 29 تھیوری کی اور 24 پریکٹیکل کی کلاسز کسی انسٹرکٹر کے ساتھ لی ہیں۔
آپ کا لائسنس کا امتحان عمومی طور پر کسی ڈرائیونگ اسکول کے توسط سے بک کیا جاتا ہے۔ پہلے آپ سے تھیوری کا امتحان لیا جاتا ہے جس میں 25 سوال پوچھے جاتے ہیں۔ ان میں سے کم از کم 20 سوالوں کے جواب درست ہونا لازمی ہے۔ یہ امتحان مختلف حالات کی تصاویر پر مبنی ہوتا ہے جس میں پوچھا جاتا ہے کہ اس تصاویر میں دیے گئے حالات میں بتاؤ کہ کس طرح گاڑی چلاؤ گے، یا یہاں کون سے قوانین لاگو ہوتے ہیں، وغیرہ۔
اس کے بعد عملی امتحان لیا جاتا ہے جس میں پولیس کا ایک افسر گاڑی کے متعلق آپ کی بنیادی معلومات کی جانچ کرتا ہے، جیسے بریک کام کر رہی ہے یا نہیں، اس کو چیک کر کے دکھاؤ، گاڑی کی لائٹس ٹھیک کام کر رہی ہیں، انجن آئل کیسے دیکھا جاتا ہے وغیرہ۔
ان سوالوں کے تسلی بخش جواب کے بعد آپ اس کے ساتھ گاڑی چلاتے ہیں جو کم از کم آدھے گھنٹے تک آپ کو شہر کے مختلف حصوں، سڑکوں، چوراہوں پر لے جا کر آپ کی ڈرائیونگ کی عملی مہارت کا معائنہ کرے گا۔ اگر آپ اس کے معیار پر پورا اتریں گے تو آپ کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کر دیا جائے گا۔
اس بھٹی سے گزرنے کے بعد جو ڈرائیور سڑک پر گاڑی چلاتے ہیں ان سے ٹریفک حادثات کا احتمال بہت حد تک کم ہوتا ہے۔ سٹرک پر لائنوں کا خیال رکھنا، ایک دوسرے کے آگے پیچھے اچھے انداز میں ڈرائیو کرنا، اس قبیل کی دوسری خوبیاں اس طرح کے نظام کا ثمر ہیں۔
بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے کا تصور بھی موجود نہیں۔ اٹھارہ سال سے کم عمر لوگ کبھی بھی ڈرائیونگ سیٹ پر نظر نہیں آئیں گے۔ مگر حالیہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ صرف شہر کراچی میں 38 لاکھ رجسٹرڈ گاڑیاں ہیں جبکہ ڈرائیونگ لائسنس رکھنے والوں کی تعداد صرف 12 لاکھ ہے، اور اوپر سے سختی کر دی گئی ہے کہ 26 لاکھ لوگ جلد از جلد لائسنس لیں ورنہ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے پر سخت جرمانہ کر دیا جائے گا۔ فاضل مضمون نگار کا مؤقف تھا کہ لائسنس لینے کا عمل آسان بنایا جائے تاکہ جلد از جلد اکثریت کو لائسنس مل سکے۔
میرے خیال میں ڈنگ ٹپاؤ قسم کے منصوبوں کے بجائے حکومت کو ایک جامع طریقہ وضع کرنا ہوگا اور دنیا میں رائج ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے طریقہء کار کو تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ اپنے ملک میں لاگو کرنا ہو گا۔ جیسا طریقہء کار ڈنمارک میں وضع ہے، اس سے ملتا جلتا طریقہ مہذب دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں رائج ہے۔ اس نظام کی نقل کرنے کے لیے کچھ زیادہ محنت بھی درکار نہیں۔
سب سے پہلے پورے ملک میں ڈرائیونگ کی تھیوری اور پریکٹیکل کا ایک یکساں نصاب وضع کیا جائے۔ حکومت تمام ریٹائرڈ ٹریفک پولیس اور وارڈنز کو دعوت دے کہ وہ ڈرائیونگ اسکول کھول سکیں، جو حکومت سے منظور شدہ نصاب کے مطابق لوگوں کو ڈرائیونگ کی تعلیم دیں۔ ڈرائیونگ کے امتحان میں جانے سے پہلے آپ کو ڈرائیونگ اسکول سے ایک سند لینا ضروری ہو، جو اس بات کی گواہی ہو کہ آپ کو ڈرائیونگ کے قوانین کا مکمل علم ہے، اور آپ سڑک پر گاڑی چلانے سے بھی آشنا ہیں۔ لرننگ ڈرائیونگ لائسنس کو بالکل ختم کر دیا جائے یا اتنا محدود کردیا جائے کہ ساتھ میں کسی تجربہ کار ڈرائیور کو بٹھائے بغیر گاڑی سیکھنے والا گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر نہ بیٹھے۔
تھیوری اور پریکٹیکل کو باقاعدہ امتحان کی شکل دے دی جائے۔ اور لوگوں کی سہولت کی خاطر یہ ان کی اپنی زبان میں ہو جیسا کہ ڈنمارک میں آپ ایک مترجم کی مدد سے اردو میں بھی ڈرائیونگ کا امتحان پاس کر سکتے ہیں۔ اسکول کالجز کی سطح پر ڈرائیونگ کے متعلق بنیادی قسم کی معلومات نصاب کا حصہ بنانے میں کچھ حرج نہیں۔
26 لاکھ ڈرائیونگ لائسنس دینے کا مطلب لوگوں سے چند سو روپے لے کر ایک پرنٹڈ کاغذ دینا نہ ہو بلکہ لوگوں کو تربیت دینا ہو کہ لوگ سڑکوں پر محفوظ گاڑی چلا سکیں۔ اس لیے آسانی پیدا کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہ ہو کہ جو لوگ لائن میں آ کر کھڑے ہو جائیں یا کسی موبائل یونٹ پر چلے جائیں وہ ڈرائیونگ لائسنس لے کر ہی لوٹیں۔
ڈرائیونگ لائسنس کے دفاتر میں فی الوقت رائج میڈیکل، تھیوری، اور پریکٹیکل کس طرح خانہ پری کے ذریعے 'مکائے' جاتے ہیں، یہ ہم سب جانتے ہیں، جس کا نتیجہ ہر روز سینکڑوں حادثات، سڑکوں پر مار پیٹ، گالم گلوچ، اور یہاں تک کہ جانی نقصان کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھ لینا ہو گا کہ قوانین کی پاسداری کے علاوہ کوئی اور آپشن ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ چند ہزار لگا کر قتل کا لائسنس حاصل کرنے کی کوشش خود سے ہی ترک کریں اور کبھی بھی ڈرائیونگ کی ابجد جانے بغیر گاڑی چلانے کی کوشش نہ کریں۔
کچھ لوگوں کے دلائل ایسے بھی ہیں کہ لائسنس لینے کا بھی کیا فائدہ پولیس نے دونوں صورتوں میں پیسے ہی لینے ہیں۔ ان لوگوں سے بھی درخواست ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس لینے کا نقطہ نظر تبدیل کیجیے۔ اس دستاویز کا مطلب آپ کو ایک محفوظ ڈرائیور بنانا ہے اور اسی لیے قانون میں اس کی ضرورت محسوس کی گئی ہے، ناکہ یہ کاغذ پولیس سے بچانے کے لیے ہے۔
تبصرے (3) بند ہیں