• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

لاہور فیکٹری حادثہ: 25 افراد کی ہلاکت کی تصدیق

شائع November 5, 2015
۔—اے ایف پی۔
۔—اے ایف پی۔
ملبے تلے دبے افراد کو انتہائی احتیاط سے ریسکیو کیا جارہا ہے—۔ڈان نیوز اسکرین گریب
ملبے تلے دبے افراد کو انتہائی احتیاط سے ریسکیو کیا جارہا ہے—۔ڈان نیوز اسکرین گریب

لاہور: لاہور میں زمین بوس ہونے والی فیکٹری کے ملبے سے اب تک 25 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں،جبکہ دیگر افراد کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے.

گذشتہ روز لاہور میں سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں ایک زیر تعمیر فیکٹری زمین بوس ہونے سے 100 سے زائد افراد ملبے تلے دب گئے تھے.

پولی تھین بیگ بنانے والے اس تین منزلہ فیکٹری کی چوتھی منزل زیر تعمیر تھی، جہاں کئی کم عمر مزدور بھی کام کرتےتھے.

فیکٹری کی عمارت گرنے کا واقعہ 26 اکتوبر کو ملک کے بیشتر علاقوں میں آنے والے شدید زلزلے کے تقریباً دو ہفتوں بعد پیش آیا ہے، جس کے نتیجے میں 200 سے زائد افراد ہلاک جبکہ متعدد عمارتیں متاثر ہوئی تھیں۔

ایدھی ذرائع کے مطابق سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعہ کے بعد ملبے سے 100 سے زائد افراد کو نکالا جا چکا ہے، جنھیں مختلف ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا۔

ایک ریسکیو اہلکار عبدالرزاق نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ریسکیو آپریشن میں وقت لگے گا اور ہمارا مقصد ان جگہوں تک پہنچنا ہے جہاں ملبے کے نیچے سے ہمیں مدد کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔

ملبے تلے دبے افراد کو انتہائی احتیاط سے ریسکیو کیا جارہا ہے—۔ڈان نیوز اسکرین گریب
ملبے تلے دبے افراد کو انتہائی احتیاط سے ریسکیو کیا جارہا ہے—۔ڈان نیوز اسکرین گریب

ایک ریسکیو اہلکار کے مطابق لاہور کی تباہ حال فیکٹری تلے دبے افراد کو نکالنے کا کام رات بھر بغیر کسی وقفے کے جاری رہا،جبکہ 3 کرینیں، ایک بلڈورز اور 40 سے زائد ریسکیو گاڑیاں اور ایمبولینسز امدادی کاموں میں شامل رہیں۔

پاک فوج کے جوان بھی امدادی اہلکاروں کے ساتھ مل کر زخمیوں کو نکالتے اور ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال منتقل کرتے رہے۔

جہاں ضرورت محسوس کی گئی وہاں بھاری مشینری کا استعمال بھی کیا گیا، تاہم بعد میں جانی نقصان سے بچنے کے لیے بھاری مشیری کا استعمال روک دیا گیا۔

تاہم پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری نے میڈیا کو بتایا کہ تنگ گلیوں کی وجہ سے ریسکیو کا کام سست روی کاشکار ہے۔

فیکٹری کے ملبے تلے دبے افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے گئے—۔ڈان نیوز اسکرین گریب
فیکٹری کے ملبے تلے دبے افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے گئے—۔ڈان نیوز اسکرین گریب

مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق کے مطابق حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ تمام افراد کو بحفاظت نکال لیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ "جانیں بچانا ترجیحات میں شامل ہے"۔

خواجہ سلمان رفیق نے مزید بتایا کہ ہلاک اور زخمیوں کو شریف میڈیکل کمپلیکس، جناح اور سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا ور ان تمام اسپتالوں میں ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی سندر اسٹیٹ میں حادثے کی جگہ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انھوں نے اعلان کیا کہ اگر واقعے میں کوئی کوتاہی ثابت ہوئی تو ذمہ دار بچ نہیں سکیں گے۔

شہباز شریف نے حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کے لیے 5 لاکھ روپے معاوضے کا بھی اعلان کیا.

عینی شاہدین کے تاثرات

ایک مزدور رفیق نے ڈان کو بتایا کہ وہ چوتھی منزل پر کام کر رہے تھے کہ اچانک عمارت زمین بوس ہو گئی۔

رفیق کے مطابق، حادثہ کے وقت 150 سے زائد مزدور کام کر رہے تھے۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ انہیں ملبے کے نیچے سے چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی.

ایک مزدور سبطین شاہ نے بتایا کہ وہ فیکٹری میں کام کر رہے تھے کہ اچانک انہیں عمارت کے ستون لرزتے ہوئے محسوس ہوئے۔

’ہم فیکٹری مالک کو اطلاع دینے بھاگ کر نیچے گئے تو انہوں نے ہماری عمارت خالی کرنے کی درخواست سنی اور حالات کا جائزہ لینے اندر چلے گئے، اس دوران ہم جلدی سے باہر آ گئے‘۔

شاہ کے مطابق، کچھ لمحوں بعد عمارت زمین بوس ہو گئی اور کئی ساتھی مزدور ملبے تلے دب گئے۔

بتایا جارہا ہے کہ فیکٹری مالک رانا اشرف بھی واقعے میں ہلاک ہو گئے، جن کی لاش ہسپتال منتقل کر دی گئی۔

فیکٹری کی عمارت گرنے سے ہونے والے نقصان کا ایک منظر—۔ڈان نیوز اسکرین گریب
فیکٹری کی عمارت گرنے سے ہونے والے نقصان کا ایک منظر—۔ڈان نیوز اسکرین گریب

کئی مزدوروں نے نیوز چینلز کو بتایا کہ گزشتہ دنوں زلزلے کے جھٹکوں کے نتیجے میں عمارت میں دراڑیں پڑ گئی تھیں، تاہم فیکٹری مالک نے چوتھی منزل کی تعمیر جاری رکھی۔

ایک مزدور نے بتایا 'ہم نے فیکٹری مالک سے چوتھی منزل بنانے سے قبل اضافی ستون کھڑے کرنے کو کہا تھا، لیکن ا نہوں نے ہمارا مشورہ نظر انداز کر دیا'۔

تبصرے (2) بند ہیں

حسن امتیاز Nov 05, 2015 12:10pm
بلڈنگ کورڈ پر عمل درآمد پتہ نہیں کس کی ذمہ داری ہے ۔ ؟
طاھررفیق Nov 06, 2015 01:16am
انتہائی دکھ بھرا واقعہ ھے. ذمہ دار کا تعین کرنا ضروری ھے. مزید یہ کہ مزدوروں میں بچے بھی شامل ھیں لیکن حیرت ھے کہ کسی حکومتی عہدیدار نے چائلڈ لیبر کا نوٹس لیا ھو.پاکستان میں غریب کی جان کی کوئی قیمت نہیں. سب باتیں ھیں کاش ایسے حادثوں میں جاں بحق ھونے والوں میں ھمارے معززحکمرانوں اور رھنماؤں کے بچے بھی شامل ھوں تو آئندہ ایسے حادثات سے بچا جا سکتا ھے ورنہ غریب مرتا رھیگا اور سیاسی ٹی وی شوز چلتے رھیں گے.کراچی فیکٹری آتشزدگی اسکی ایک مثال ھے.کس کو سزا ملی کسی کو کچھ پتا نہیں.پاکستان میں جھوٹ اور منافقت اتنی ھے کہ حیرت ھے اسے ایک اسلامی و جمہوری ملک کیوں کہا جاتا ھے.

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024