ایک ماہ میں 26 لاکھ لائسنس کیسے جاری ہوں گے؟
گذشتہ دنوں کراچی ٹریفک پولیس کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر کار اور موٹر سائیکل چلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، لیکن اس اعلان سے پہلے کوئی بھی پیشگی انتظامات نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے اعلان ہوتے ہی ڈرائیونگ لائسنس برانچوں میں عوام کا ہجوم امڈ آیا اور لائسنس کے اجراء میں شدید دشواریوں کی وجہ سے وہاں عملے اور عوام میں بدمزگی پیدا ہوئی۔
اصل میں بغیر منصوبہ بندی کیے گئے ہر اعلان کا وہی حال ہوتا ہے جو اس کا ہوا۔ اعلان کرنے سے پہلے ہر برانچ میں اضافی انتظامات کرنے چاہیے تھے. صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی حکومت نے یوں تو لائسنس بنوانے کی مدت میں توسیع کر دی ہے، پر اگر اب بھی انتظامات اس طرح رہے تو ایک ماہ بعد بھی صورتحال مختلف نہیں ہوگی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہر کراچی میں 38 لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں لیکن لائسنس صرف 12 لاکھ لوگوں نے حاصل کیا ہے۔ اس حساب سے 26 لاکھ سے زائد لائسنس کا اجراء ممکنہ طور پر ہونا ہے لیکن فی الوقت ایسے کوئی انتظامات نظر نہیں آ رہے جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ ایک ماہ کی توسیع کے دوران شہر میں قائم تین لائسنس برانچیں 26 لاکھ لائسنس جاری کر سکیں گی کیونکہ پہلے ہی دن جس طرح لوگوں کا ہجوم ان برانچوں میں نظر آیا اور انتظامیہ کے خلاف احتجاج ہوا وہ اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ موجودہ بندوبست میں یہ کام انتظامیہ کے بس سے باہر ہے۔
ٹریفک حکام کے مطابق کسی بھی ڈرائیونگ لائسنس برانچ میں عام طور پر روزانہ کی بنیاد پر 100 سے 150 فارم جاری کیے جاتے ہیں، لیکن اعلان کے بعد ایک دن میں 5000 فارمز کا اجراء کیا گیا۔ اس سے پہلے بھی اس قسم کے اعلانات میں کچھ ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آئی تھی جب ہیلمٹ کی پابندی کا اعلان کیا گیا تھا یا پھر موٹر سائیکلوں کی نمبر پلیٹس کو سفید رنگ سے تبدیل کروانے کا اعلان کیا گیا تھا۔
یہاں ایک امر اور قابل غور ہے کہ ستمبر کے مہینے میں ڈی آئی جی ٹریفک پولیس کراچی میں خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کے لیے ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء کا بھی اعلان کر چکے ہیں، تو اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ جہاں تمام انتظامات کرنا ہوں گے، وہیں خواتین کے لیے بھی انتظام کرنا ہوں گے۔ عوام سے متعلق کسی بھی فیصلے کے اعلان سے پہلے ہر زوایے سے ہوم ورک کرنا لازمی جز ہے تاکہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتظامات پہلے سے موجود ہوں نہ کہ عجلت میں اعلان کر کے پھر اس کے نتائج سامنے آنے پر ترامیم یا انتظامات کیے جائیں۔
اب کچھ اس طرح کی منصوبہ بندی کی جائے جس سے عوام کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے لیے تمام موبائل ڈرائیونگ لائسنس وینز کو دوبارہ فعال کرنا چاہیے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا تھا کہ قومی اخبارات کے ذریعے تشہیر کی جاتی تھی کہ کس تاریخ کو یہ موبائل وین سروس کس جگہ لائسنس کا اجراء کریں گی۔ لائسنس کی چیکنگ کی آخری میعاد بڑھا کر لائسنس کے اجراء کو کئی مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، یعنی پہلے فیز میں کمرشل گاڑی چلانے والوں کو شامل کیا جاسکتا ہے، دوسرے فیز میں نجی گاڑیاں چلانے والوں کو شامل کیا جا سکتا ہے اور تیسرے فیز میں موٹر سائیکل چلانے والوں کو لائسنس جاری کیے جا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ لرننگ لائسنس کے لیے مختلف شاہراہوں اور شہر کی بڑی بڑی جامعات میں کیمپ بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے کیے گئے اعلان کے مطابق بغیر ڈرائیونگ لائسنس کے گاڑی چلانے والے کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے، تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی گرفتاریاں غیر قانونی ہوں گی کیونکہ ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے پر صرف چالان کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اب بھی ایک ماہ کی گئی توسیع کے درمیان بھی ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء کے لیے خاطر خواہ منصوبہ بندی نہ کی گئی اور معیاد ختم ہونے کے بعد چیکنگ شروع کر دی گئی تو پھر ایک نیا مسئلہ بھی پیدا ہونے کا خدشہ ہے، جس کا شکار وہ لوگ بھی ہوں گے جن کے پاس پہلے سے ڈرائیونگ لائسنس موجود ہیں کیونکہ شہر کراچی پہلے ہی ٹریفک کے کئی مسائل کا شکار ہے اور اگر اسی میں شہر کی مصروف شاہراہوں پر تمام گاڑیاں چلانے والوں کو روک کر لائسنس کی چیکنگ شروع کر دی گئی تو ان شاہراہوں پر ٹریفک اس قدر جام ہوگا کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اس بات پر کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہر گاڑی چلانے والے کے پاس لائسنس ہونا ضروری ہے۔ اب حکومت نے ایک عرصے تک اس اہم ترین قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں سے چشم پوشی کیے رکھنے کے بعد فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ اس پر سختی سے عملدرآمد کروانا ہے، تو چاہیے یہ کہ اس کے طریقے کار کو آسان بنایا جائے تاکہ کوئی بھی آسانی سے اسے حاصل کر لے۔ اس کے بعد ضرور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانے عائد ہونے چاہیئں تاکہ لوگوں میں قانون پر عملدرآمد کا شعور پیدا ہو۔
تبصرے (5) بند ہیں