• KHI: Fajr 5:18am Sunrise 6:34am
  • LHR: Fajr 4:43am Sunrise 6:04am
  • ISB: Fajr 4:46am Sunrise 6:09am
  • KHI: Fajr 5:18am Sunrise 6:34am
  • LHR: Fajr 4:43am Sunrise 6:04am
  • ISB: Fajr 4:46am Sunrise 6:09am

جیجی زرینہ بلوچ: سندھ کی جادوئی آواز

شائع October 25, 2015 اپ ڈیٹ October 27, 2015
آج بھی ان کے گائے ہوئے گیت سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں اور ان کی آواز سننے والوں پر سحر طاری کر دیتی ہے۔ فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد۔
آج بھی ان کے گائے ہوئے گیت سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں اور ان کی آواز سننے والوں پر سحر طاری کر دیتی ہے۔ فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد۔

انہیں سب جیجی کہہ کر پکارتے تھے۔ جیجی سندھی زبان میں دادی ماں یا نانی ماں کو بھی احتراماً کہا جاتا ہے، مگر ان پر یہ نام ان کے لکھے ہوئے افسانے "جیجی" کی وجہ سے پڑا۔ جیجی افسانہ حالات کی ماری ایک لاچار اور بے بس دیہاتی عورت پر مبنی ہے۔ یہ افسانہ انہوں نے 60 کی دہائی میں لکھا تھا، جسے سندھی ادب کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جیجی زرینہ کے بغیر سندھ ایسے ہے جیسے خانم گوگوش کے بنا ایران، جیسے لتا منگیشکر کے بنا ہندوستان یا پھر جیسے جان لینن کے بنا انگلستان۔

وہ فلسطینی نوجوان تھے جنہوں نے انہیں "ام کلثوم" کا لقب دیا تھا۔ اس کے بعد ان کا ایک تعارف ام کلثوم بھی بن گیا۔ مگر ہمارے ملک کی کون سی ایسی قوم ہے جس کے لیے انہوں نے گیت نہیں گائے۔ ان کے گیت سب کے لیے تھے۔ جس طرح موسیقی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اسی طرح گیت بھی دنیا میں بسنے والے سب لوگوں کے ہوتے ہیں۔ ان کی آواز بھی سب کے لیے تھی۔

وہ فطری طور پر گلوکارہ تھیں، اور ایک ہمہ گیر شخصیت کی مالک تھیں۔ مگر ان کی حقیقی پہچان گلوکارہ کے طور پر ہوئی۔ آمنہ اور پھر زرینہ سے لے کر جیجی تک کا سفر انہوں نے رات بھر میں طے نہیں کیا، بلکہ اس سفر کے لیے انہوں نے کئی مصائب جھیلے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے جیسے ہی اپنی تعلیم مکمل کی تو تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں۔ انہیں گانے کا بہت شوق تھا اوروہ اسکول کے اسٹاف روم میں گنگناتی رہتی تھیں۔ ایک بار جب انہوں نے ریڈیو پر آڈیشن دیا اور وہاں گانے کا مقابلہ ہوا تو انہوں نے تیسرا نمبر حاصل کیا۔

.فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد
.فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد

یہ ون یونٹ کا ہی زمانہ تھا جب عوام کی زبان پر مہر لگی ہوئی تھی، ایوب کی آمریت کے خلاف لب کشائی ناممکن کام لگتا تھا۔ اس وقت سیاسی جلسوں اور تحریکوں میں جیجی زرینہ کے ہی گائے ہوئے گیت تھے، جنہوں نے عوام میں نئی روح پھونکی، کیونکہ سیاسی جدوجہدوں میں قومی گیت ایندھن کا کام کرتے ہیں۔ ون یونٹ مخالف تحریک میں نہ صرف سیاستدان شامل تھے بلکہ اساتذہ، صحافی اور طالب علم بھی اسی قافلے میں پیش پیش تھے۔ اسی زمانے میں وہ حیدر بخش جتوئی اور شیخ ایاز کی گیت گایا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی، امداد حسینی، استاد بخاری، شمشیرالاحیدری اور دیگر سندھی شعراء کے کلام کو بھی اپنی آواز میں گا کر امر کر دیا۔

ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنے گانے کے شوق کے حوالے سے کہا کہ "جب میں نے ریڈیو پر گانا شروع کیا تو اپنے بڑے بھائی کے سوا یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی۔ ایک مرتبہ میرے والد ریڈیو پر میرا ہی گانا سن رہے تھے، جب گانا ختم ہوا تو انہوں نے کہا ”واہ مائی زرینہ، کیا خوب گاتی ہو"، اور میں یہ سن کر ہسنتی رہی۔ من میں خیال آیا کہ والد صاحب کو حقیقت بتا دوں کہ یہ زرینہ میں ہوں مگر ہمت نہ ہوئی۔"

ان کی آواز کا جادو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ سندھی میں جتنے بھی گائے جانے والے سندھی لوک گیت ہیں، ان میں جیجی زرینہ کو شامل نہ کیا جائے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ سندھی لوک گیت جو اس زمانے صرف گھروں اور کھیتوں کھلیانوں تک محدود تھا، اسے جیجی نے ریڈیو اور ٹی وی پر عام کیا۔ انہوں نے اپنی آواز سے لوک گیت کو ایک نئی زندگی بخشی۔

آج بھی ان کے گائے ہوئے گیت خوشیوں کے تہواروں میں گائے اور سنے جاتے ہیں۔ یہ ان کا ہی کمال تھا کہ انہوں نے سندھی زبان میں ایسے ایسے گیت گائے جو اب لازوال بن گئے ہیں، مگر اس بات کا سہرا ان کے شوہر مشہور سیاستدان رسول بخش پلیجو کو بھی جاتا ہے، جنہوں نے نہ صرف لوگ گیت گانے کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے جیجی زرینہ بلوچ کا ہر قدم پر ساتھ دیا، بلکہ انہوں نے جیجی زرینہ کی آواز کو قومی گیتوں کی راہ دکھائی۔

جس طرح کسی شاعر کو کسی ایسی آواز کی تلاش ہوتی ہے جو اسے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دے، وہ آواز شیخ ایاز کی شاعری کو جیجی زرینہ کے ذریعے ملی۔ ان کی ایک اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے جدید سندھی شاعری کے اس عظیم شاعر کے گیتوں اور نظموں کو اس انداز سے پیش کیا کہ جیسے انہوں نے شیخ ایاز کو دوبارہ دریافت کیا ہو۔ پھر وہی گیت ہر خاص و عام کی زبان پر ہوتے تھے۔ انہوں نے ایاز کو ایسے ہی گایا جیسے نورجہاں نے فیض احمد فیض کو۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ ان کی پہچان ویسے تو لوک گیت ہیں مگر جب وہ قومی گیت گاتی تھیں تو انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہاں موجود سب لوگ ان کے ساتھ گا رہے ہوں۔

جیجی زرینہ بلوچ اپنے شوہر اور نامور سیاستدان و قانوندان رسول بخش پلیجو کے ساتھ۔
جیجی زرینہ بلوچ اپنے شوہر اور نامور سیاستدان و قانوندان رسول بخش پلیجو کے ساتھ۔

` `

انہوں نے دو سال تک قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، مگر یہ ان کے لیے نئی بات اس لیے بھی نہیں تھی کہ سیاسی خاندان سے وابستگی ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ کافی وقت سے جاری تھا۔ آپا قمر واحد اور نیلوفر جویو (ماہرِ تعلیم اور دانشور محمد ابراہیم جویو کی صاحبزادی) ان کی قریبی دوست تھیں، جن کے ساتھ انہوں نے کافی اچھا وقت گذارا۔

جس طرح ملکوں کی ایک پہچان تو وہاں کی جغرافیائی حدود طے کرتی ہیں مگر کچھ خطوں کی پہچان کچھ آوازیں بھی ہوتی ہیں، اسی طرح جیجی زرینہ بھی ہمارے ملک کی ایک ایسی شخصیت اور آواز تھیں جو ہماری شناخت بن گئیں۔ وہ ایک ہی وقت ایک ماں، گلوکارہ، صداکارہ، افسانہ نگار اور اداکارہ جیسے کردار اپنی حقیقی زندگی میں نبھاتی رہی۔ پی ٹی وی پر نشر ہونے والا ان کا مشہور ڈرامہ "دنگی منجھ دریا" تھا، جسے علی بابا نے تحریر کیا تھا۔

وہ ان لوگوں میں سے تھیں، جو دکھوں کو ہنس کر جھیلتے ہیں اور خوشیوں کو عارضی سمجھتے ہیں۔ شاید یہی ان کی بہتر زندگی کا راز تھا اور یہی وہ رویہ تھا جس کی وجہ سے وہ سب کی جیجی کہلائی۔

جیجی زرینہ طویل علالت کے بعد جسمانی طور ہم سے 25 اکتوبر 2005 کو بچھڑ گئیں۔ ان کی مختلف شعبہ جات میں کی جانے والی خدمات کو کسی بھی طرح فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج بھی جب ان کے گائے ہوئے گیت سنے جاتے ہیں تو وہ کانوں میں رس گھولنے لگتے ہیں اور ان کی آواز کا جادو آج بھی سننے والوں پر سحر طاری کر دیتا ہے۔

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس akhterhafez@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (7) بند ہیں

Kaleemullah Rajar Oct 25, 2015 06:18pm
zabardast... jiji zareena ji shaksiyat khe akhtar tmam sutho tribute pesh kayo aahe....
satram sangi Oct 25, 2015 06:49pm
زرينا بلوچ ايک غير تکراري شخصيت، سندهه کي لوگ جسي پيار مين ”جيجي“ پکارا کرتي هين. بهت خوب اختر حفيظ
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Oct 25, 2015 09:47pm
ماشااللہ بہت عمدہ اور معلوماتی تحریر
Read All Comments

کارٹون

کارٹون : 21 مارچ 2025
کارٹون : 20 مارچ 2025