کراچی کے ہندوؤں کا جلوسِ عاشور
اگر یہ کہا جائے کہ شہر کے وسط میں واقع نارائن پورہ غیر مسلموں کی شہر میں سب سے بڑی آبادی ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ نارائن پورہ شہر کی قدیم آبادی رنچھوڑلائن سے متصل ہے۔ نارائن پورہ میں سب سے بڑی آبادی ’ہریجن برادری‘ سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کی ہے، دوسرے نمبر پر غیر مسلم عیسائی اور تیسرے نمبر پر سکھ آباد ہیں۔ ان تینوں برادریوں کے مذہبی، سماجی اور ثقافتی تہوار بڑی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔ عاشورہ کے موقعے پر نارائن پورہ سے ذوالجناح اورتعزیے کا جلوس بھی 9 محرم کی شام کو برآمد کیا جاتا ہے، جس میں غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی بڑھ چڑھ کر شرکت کرتے ہیں۔
ہمیں جب اس مذہبی رواداری پر مبنی رسم کی اطلاع ملی تو ہم 8 محرم کی رات کو بڑی تگ و دو کے بعد نارائن پورہ پہنچے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 8محرم سے لے کر 10 محرم تک بندر روڈ مکمل طور پر سیل کردیا جاتا ہے۔ نارائن پورہ جانے سے قبل ہم نے دریا لال مندر کے پُجاری وجے مہاراج سے اس سلسلے میں مدد کی درخواست کی تو انہوں نے ہمیں دیو جی صاحب کا نمبر دیا، دیو جی صاحب نے ہمارا رابطہ اشوک دیو جی پرو بھیا سے کروایا اور کہا کہ جب ہم وہاں پہنچیں گے تو وہ وہاں موجود ہوں گے۔
اسی طرح پاکستان سکھ کاؤنسل کے چیئرمین سردار رمیش سنگھ نے بھی یقین دلایا کہ وہ وہاں پہنچنے کی پوری کوشش کریں گے۔ خیر ہم نارائن پورہ پہنچے۔ نارائن پورہ میں رنگ و نور کا ایک سیلاب آیا ہوا تھا۔ زرق برق ساڑھیوں میں ملبوس ہندو خواتین شہنائی اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کر رہی تھیں، ایک جانب ٹھنڈے اور میٹھے دودھ کی ایک بہت بڑی سبیل لگی ہوئی تھی، جہاں لوگ دودھ پی رہے تھے۔
سبیل پر موجود سبیل کے منتظم ایک سردار جی سے ہم نے سبیل لگانے کا مقصد دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ عاشورہ کے موقع پر جب ذوالجناح برآمد ہوتا ہے تو یہ سبیل لگاتے ہیں، لیکن چونکہ آج ہندو بھائیوں کے ’دسہرے‘ کی تقریب بھی منائی جا رہی اس لیے زیادہ بڑا انتظام کیا ہے۔
اس موقع پر اشوک دیو جی وہاں پہنچ گئے، اور ہمیں کچھ دیر ٹھہرنے کو کہا، اس کے بعد وہ ہمیں وہاں سے ذوالجناح اور تعزیہ دکھانے کے لیے مزید آگے کی طرف لے گئے۔ کچھ دور جانے کے بعد وہ ہمیں لے کر ایک کمرے کے سامنے رک گئے۔ دروازہ کھلا ہوا تھا، اور جب ہم اندر داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ذوالجناح ’لکڑی‘ کا بنا ہوا تھا اور لوگ اس کی سجاوٹ میں مصروف تھے، اور کچھ لوگ ہاتھ باندھے آنکھیں بند کیے کھڑے ہوئے تھے۔
اشوک دیو جی نے بتایا کہ یہ لوگ ’منت‘ مانگ رہے ہیں۔ ہم جب کمرے سے باہر نکلے تو ایک کمسن بچہ ڈھول اور شہنائی کی تھاپ پر رقص کر رہا تھا۔ اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ بچے کے والد نے منت مانگی تھی جو پوری ہو گئی، تو وہ ذوالجناح پر چڑھاوا چڑھانے کے لیے آئے ہیں۔ اس موقع پر موجود جیٹھا پٹیل نے ہمیں بتایا کہ ذوالجناح اور تعزیے کا یہ جلوس سو برس سے نکالا جاتا ہے، اس کا آغاز گھنشا بابو نے کیا تھا۔ ان کی اولاد نہیں تھی، تو انہوں نے عاشور کے موقع پر منت مانگی تھی کہ اگر ان کے اولاد ہوئی تو وہ محرم میں گھوڑا دیں گے۔ ان کی منت پوری ہوئی اور اس کے بعد انہوں نے اس رسم کا آغاز کیا جو آج تک جاری ہے۔
پاکستان سکھ کاؤنسل کے چیئرمین رمیش سنگھ نے بتایا کہ ذوالجناح کے اس جلوس میں سکھ برادری کے افراد بھی بڑے جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں اور ویسے بھی بابا گرو نانک کی تعلیمات کا یہ تقاضہ ہے کہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بغیر کسی تفریق کے امن اور رواداری کے ساتھ زندگی گذاریں، اور نارائن پورہ کا یہ محرمی جلوس اس کی عملی مثال ہے۔
نارائن پورہ کی سماجی تنظیم ’شری کاٹھیاواڑی ہریجن نیو جنریشن سیوا سمیٹی‘ کے عہدیداران کشن ادھوجی واگلا اور ششی گوکھل باڑیا نے ہمیں بتایا کہ کافی عرصے بعد دسہرا اور عاشورہ ایک ساتھ منایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذوالجناح اور تعزیہ رکھنے کی جگہ بہت چھوٹی ہے، ان کی حکومت سے درخواست ہے کہ انہیں زیادہ کشادہ جگہ دی جائے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ذوالجناح اور تعزیہ کی زیارت کر سکیں۔
کراچی کے علاقے صدر میں مینسفیلڈ اسٹریٹ سے بھی ہندو برادری کا ایک تعزیہ برآمد ہوتا ہے۔ اس تعزیے کا آغاز دایا سائیں بابا نے قیامِ پاکستان سے قبل کیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے فقیر سائیں اس تعزیے کے منتظم ہیں۔ ان کا تعلق ہریجن ہندو برادری سے ہے۔ یہ تعزیہ زیارت کے لیے 9 محرم سے 10 محرم تک لکی اسٹار کے چوک پر رکھا جاتا ہے جہاں ہندو مرد اور خواتین منت مانگنے کے لیے آتے ہیں۔ فقیر سائیں نے بتایا کہ پہلے تعزیے کو صدر کی مختلف شاہراہوں پر گشت کروا کر نیٹی جیٹی پر ٹھنڈا کیا جاتا تھا لیکن حالات خراب ہونے کے بعد لکڑی کے تعزیے کو چاندی کے تعزیے میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اب یہ تعزیہ زیارت کے لیے ایک ہی مقام پر رکھا جاتا ہے۔
— تصاویر بشکریہ اعجاز احمد کورائی
تبصرے (3) بند ہیں