• KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:28pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:31pm
  • KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:28pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:31pm

آج بھی ٹینکر لینا پڑے گا

شائع October 23, 2015
جڑواں شہروں کے رہائشی پانی کے لیے ٹینکروں اور بورنگ پر انحصار کرتے ہیں جو نہ صرف مہنگا بلکہ غیر صحت بخش بھی ہے۔ — فوٹو دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ۔
جڑواں شہروں کے رہائشی پانی کے لیے ٹینکروں اور بورنگ پر انحصار کرتے ہیں جو نہ صرف مہنگا بلکہ غیر صحت بخش بھی ہے۔ — فوٹو دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ۔

طلوع سحر کے بعد غلام حیدر کے دن کا آغاز شہر میں پانی کی فراہمی کے ذمہ دار محکمے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے دفتر کے باہر قطار میں لگ کر ہوتا ہے۔ وہ پانی کے ایک ٹینکر کا آرڈر کرنا چاہتا ہے۔

حیدر اسلام آباد کے علاقے G10 کا رہائشی ہے۔ شہر کے دیگر گھرانوں کی طرح اسے بھی مین لائن سے دن میں صرف تین سے چار گھنٹے پانی ملتا ہے۔ خاصے انتظار کے بعد 100 سے 150 روپے (1 سے 1.5 امریکی ڈالر) ادا کر کے گھر کے لیے ایک ٹینکر ملتا ہے، جسے گھر تک پہنچنے میں گھنٹوں اور کبھی کبھی دن بھی لگ جاتے ہیں۔ ایک ٹینکر میں تین گھروں کا حصہ ہوتا ہے۔

انتظار سے بچنے کے لیے حیدر نجی ٹینکر سروس سے بھی پانی خرید سکتا ہے لیکن یہ مہنگا ہوتا ہے۔ ایک ٹینکر کی قیمت 1000 سے 3000 روپے (10 سے 30 امریکی ڈالر) ہوتی ہے جس کا دار و مدار فاصلے پر ہوتا ہے۔ اس کے علاقے میں نصب پانی کا فلٹریشن پلانٹ اکثر کام نہیں کرتا اس لیے خاندان کو پینے کے لیے بوتل بند پانی خریدنا پڑتا ہے۔

صحت کے لیے خطرات

اسلام آباد کے مرکز سے تقریباً 13 کلومیٹر جنوب میں اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں گوالمنڈی کے ایک رہائشی احمد علی کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ قریبی ٹیوب ویل اب قابلِ استعمال نہیں رہا ہے کیونکہ زیرِ زمین پانی کی سطح کافی حد تک گر چکی ہے جبکہ زنگ آلود اور رستے ہوئے پائپوں کے ذریعے فراہم کردہ پانی ایک وقت میں صرف چند گھنٹوں کے لیے ہی دستیاب ہوتا ہے۔

وہ اور پڑوس کے دوسرے خاندان نجی ٹینکروں سے پانی خریدنے اور اسے زیر زمین پانی کے ٹینکوں یا برتنوں اور ڈرموں میں ذخیرہ کرنے پر مجبور ہیں جو کہ اکثر ڈینگی جیسی بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔

راولپنڈی میں اس موسم گرما میں ڈینگی کیسوں کی ایک ریکارڈ تعداد دیکھی گئی ہے۔ یہ مہلک وائرس ٹھہرے ہوئے پانی میں مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے جو یہاں اپنی نسل کی افزائش کرتے ہیں۔ راولپنڈی کے حکام اس وبأ کے بے قابو ہونے سے خوفزدہ ہیں۔ اسلام آباد میں بھی ان کیسز کی بڑی تعداد دیکھی گئی ہے۔

احمد اور غلام حیدر کی حالت زار ان جڑواں شہروں میں پانی کی کمیابی کا سامنا کرنے والے لوگوں کی جدوجہد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

محدود فراہمی

سی ڈی اے کی طرف سے فراہم شدہ اعداد و شمار کے مطابق 20 لاکھ لوگوں کے شہر اسلام آباد میں پانی کی روزانہ کی ضرورت 17 کروڑ 60 لاکھ گیلن ہے جو کہ موجودہ فراہمی سے تین گنا زیادہ ہے۔ شہر اپنا زیادہ تر پانی سملی اور خانپور ڈیم کے پچھلے ذخائر سے حاصل کرتا ہے اور باقی چند اتھلے ٹیوب ویلوں سے۔

پانی کی کمیابی نے رہائشیوں کو ٹینکر خریدنے اور شہر بھر میں 38 بے تکے فلٹریشن پلانٹس سے پینے کا پانی حاصل کرنے یا بوتل بند پانی خریدنے پر مجبور کر دیا ہے۔ فلٹریشن پلانٹس تکنیکی خرابیوں اور بار بار بجلی جانے کے باعث قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔ نتیجتاً پانی لوگوں کے لیےاس بات کا فیصلہ کرنے کے عوامل میں سے ایک بن گیا ہے کہ کہاں رہنا چاہیے۔ اسلام آباد کے ایک ریئل اسٹیٹ مشیر محمد جمیل کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں پانی کی فراہمی بہتر ہوتی ہے، وہاں پراپرٹی کے کرائے زیادہ ملتے ہیں۔

راولپنڈی میں اس وقت 1 کروڑ 30 لاکھ گیلن پانی کی کمی ہے جو کہ کل کی فراہمی کا ٪26 ہے۔ یہ کمی 2025 تک بڑھ کر 4 کروڑ گیلن ہوسکتی ہے۔

30٪ کے قریب پانی راول اور خانپور ڈیم سے آتا ہے (دوسرے سے حصہ اسلام آباد کو بھی ملتا ہے) اور ٪40 شہر کے 350 ٹیوب ویلوں سے پمپ کیا جاتا ہے جو کہ زیر زمین پانی کی سطح گرنے کی وجہ ہے۔ نئے بنے ہوئے زیادہ تر رہائشی کمپاؤنڈ میں پانی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بورنگ کی گئی ہے۔

ادارہ فراہمی و نکاسیء آب راولپنڈی کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر چوہدری سعید کا کہنا ہے کہ پچھلے سالوں میں راولپنڈی کی حدود اور آبادی میں کافی اضافہ ہوا ہے جس سے شہر میں پانی کی کمیابی ہوئی ہے۔ حکومت نے چراہ، کورنگ ندی اور دادوچہ میں ڈیموں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن فنڈز کی عدم فراہمی اور انتظامی رکاوٹوں کے باعث کام رک گیا۔

بدانتظامی

راولپنڈی اور اسلام آباد کے پانی کے نظام مختلف اداروں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جس کے باعث اس مسئلے کا حل نکالنا اور بھی مشکل ہے۔ راولپنڈی کے پانی کا انتظام راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ وزارت دفاع کے تحت کرتا ہے جبکہ اسلام آباد کے پانی کا انتظام سرکاری ادارے واسا کی ذمہ داری ہے۔

وفاقی حکومت کے ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، thirdpole.net کو بتایا کہ جڑواں شہروں کی پانی کی مشکلات سیاستدانوں اور کاروباری افراد کی بدانتظامی کی وجہ سے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ سالوں میں مقامی سیاست دانوں نے ووٹروں کو مطمئن کرنے کے لیے متعدد ٹیوب ویل نصب کیے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا یقین ہے کہ عوامی حمایت حاصل کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے بھلے ہی اس کے پانی کی سطح پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بجائے سیاستدانوں کو پانی کے نئے ذخائر بنانے اور اور پانی کی ناقص پائپ لائنوں کی مرمت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ دادوچہ ڈیم جس سے جڑواں شہروں کو پانی فراہم کرنے کی توقع تھی، تعمیر نہیں کیا گیا کیونکہ زمین ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے زیر استعمال تھی۔ ڈی ایچ اے پاک فوج کا نجی کمپنیوں بحریہ ٹاؤن اور حبیب رفیق گروپ کے ساتھ شراکت داری میں ریئل اسٹیٹ منصوبہ ہے۔ یہ علاقہ اب ڈی ایچ اے ویلی ہاؤسنگ پراجیکٹ کا حصہ ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب حکومت کو وضاحت کرنے کا حکم دیا ہے کہ زمین طے شدہ منصوبے کے مطابق ڈیم کے لیے کیوں استعمال نہیں کی گئی۔ معاملہ اس وقت عدالت میں ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک پانی کے ماہر شاہد احمد کا کہنا ہے کہ شہر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بارش کا پانی جمع کرنا ایک اور طریقہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت بارش کا پانی غیر صاف شدہ فضلے کے ساتھ مل کر نالہ لئی میں جا گرتا ہے جو راولپنڈی سے گذرنے والی پانی کی ایک قدرتی ندی ہے۔ یہ ندی اکثر مون سون کے دوران کناروں سے باہر بہنے لگتی ہے۔ ندی کے بہنے کا راستہ دونوں شہروں کے درمیان 240 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔

دریائے سندھ واحد حل؟

واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے سابق چیئرمین شکیل درانی کے مطابق ماہرین کو یقین ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دریائے سندھ سے 20 کروڑ گیلن روزانہ پانی حاصل کرنا ہی واحد راستہ ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ چاروں صوبے تربیلا ڈیم کے لیے پانی کے اپنے اپنے حصے سے قربانی دیں۔ تربیلا دنیا کا سب سے بڑا مٹی سے بنا ڈیم ہے۔ یہ دریائے سندھ پر اسلام آباد سے 50 کلومیٹر شمال میں ہے۔ اس کا پانی آبادی کے تناسب سے ہر صوبے کے لیے مختص ہے۔

مگر شکیل درانی نے کہا کہ اس منصوبے پر سندھ حکومت کو اعتراض ہے۔ اس منصوبے کے لیے صوبہ سندھ کی مدد کے بغیر اسلام آباد اور راولپنڈی کے پانی کے مسائل سے نمٹنا کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

یہ مضمون دی تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ پر شائع ہوا.

ترجمہ: شبینہ فراز

کارٹون

کارٹون : 15 نومبر 2024
کارٹون : 14 نومبر 2024