ملک کی مختلف جیلوں میں 8افراد کو پھانسی
لاہور: ملک کی مختلف جیلوں میں قتل کے 8 مجرموں کو پھانسی دی گئی۔
ڈان نیوز کے مطابق ملتان، بہاولپور، گجرات اور اٹک میں سزائے موت کے قیدیوں کی سزاء پر عملدر آمد کیا گیا۔
بہاولپور ڈسٹرکٹ جیل میں 2 بھائیوں سمیت 3 مجرموں کو پھانسی دی گئی۔
مجرم غلام قادر نے بھائی غلام سرور کے ساتھ ملکر بیٹی اور داماد کو قتل کیا تھا۔
دوسرے مجرم تھانیدار نے گھریلو تنازع پر بیوی اور سسر کی جان لی تھی۔
گجرات میں بھی دو بھائیوں کو کو ہ9ی پھانسی دی گئی۔
مجرمان اسلم اور اعظم نے 1999 میں گھریلو تنازع پر سسر کو قتل کیا تھا
گجرات میں ایک مجرم نیاز کی پھانسی فریقین میں صلح کے بعد موخر کر دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں : 9 ماہ میں 226 افراد کو پھانسی
ملتان کی سینٹرل جیل میں قتل کے 2 مجرموں کو سزائے موت دی گئی۔
مجرم شفیق اور اکرم نے دو مختلف واقعات میں دو افراد کو قتل کیا تھا۔
اٹک ڈسٹرکٹ جیل میں بھی قتل کے مجرم محمد اشرف کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا۔
محمد اشرف نے سال 2003 میں باپ بیٹے کو قتل کیا تھا۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت (13-2008) نے سزائے موت پر غیراعلانیہ پابندی عائد کررکھی تھی تاہم سانحہ پشاور کے بعد اس پر ایک مرتبہ پھر عمل درآمد شروع ہوا۔
پہلی پھانسی 19 دسمبر 2014 کو فیصل آباد کی ڈسٹرکٹ جیل میں 2 مجرموں عقیل احمد عرف ڈاکٹر عثمان اور ارشد مہربان کو دی گئی۔
دونوں مجرموں پر سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کے الزام تھا۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کی جانب سے سزائے موت کی بحالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد کے بعد سےملک کی مختلف جیلوں میں اب تک 200 کے قریب مجرموں کو پھانسی دی جاچکی ہے۔
دسمبر 2014 میں حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں اعداد و شمار جمع کروائے گئے تھے جس کے مطابق پاکستان میں سزائے موت کے7 ہزار 135 قیدی موجود ہیں، جن میں سے پنجاب کے 6 ہزار 424، سندھ کے 355، خیبر پختونخوا کے 183، بلوچستان کے 79 اور گلگت بلتستان کے 15 سزائے موت کے قیدی شامل ہیں۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 8 ہزار سے زائد سزائے موت کے قیدی موجود ہیں۔
خیال رہے کہ دسمبر سے اگست کے دوران ماہ رمضان میں سزائے موت پر عملدر آمد نہیں کیا گیا تھا، البتہ ماہ رمضان کے بعد سے دوبارہ سزائے موت پر پابندی ختم کر دی گئی تھی۔
سزائے موت پر پابندی ختم ہونے کے بعد دسمبر سے اپریل کے درمیان 100 افراد کو پھانسی دی گئی جبکہ اب یہ تعداد 200 کے قریب ہے