مریخ پر تنہا رہ جانے والے شخص کی کہانی
گرد آلود سرخ سیارے پر بننے والی دی مارشین میں بیشتر سائنسی نظریات ٹھیک ہیں (مگر کچھ درست نہیں جیسے مریخ کے ریت کے طوفانوں کی ہلاکت خیزی غلط دکھائی گئی)، جبکہ سیارے کے اجنبی پن کو بھی مبالغہ انگیز انداز میں دکھایا گیا۔
مگر یہ اصل نکتہ نہیں، درحقیقت سائنس نے دی مارشین نامی اس فلم کو بچا لیا ہے اور فلم کا موضوع ہی دیکھنے میں بہت زبردست نظر آتا ہے۔
اتنا زبردست کہ درحقیقت اگر آپ کے گھر میں کوئی نوجوان ایسا ہے جو صرف انٹرنیٹ پر بلیوں کی ویڈیوز اور ویڈیو گیمز کھیلنے میں ہی دلچسپی رکھتا ہے، تو یہ فلم غور فکر کی حرکت دینے کے لیے مثالی ہے۔
دی مارشین کی کامیابی اس کی غیر رسمی تفصیلات میں چھپی ہے اور صرف منہ کھولنے پر مجبور کرنے والی سائنس کے پہلو ہی دلچسپ نہیں۔
ہم سب پیزا پسند کرتے ہیں مگر ہم میں سے کچھ ہی کنارے کی موٹی کرسٹ کے شوقین ہوتے ہیں۔ اس فلم میں سائنس کا یہ کرسٹ لے کر اسے مزیدار پنیر سے بھرا گیا ہے اور اس طرح یہ بے کیف سے مسرت بخش میں تبدیل ہوگئی ہے۔
اس کی مثال وہ منظر ہے جب ماہرِ نباتات خلاباز مارک واٹنی (میٹ ڈیمین) مریخ پر خوراک اگانے کی کوشش کرتا ہے۔
اریس تھری کی کمانڈر میلیسیا لیوئس (جیسکا چیسٹن) کے مارک کو مردہ تصور کرنے کے بعد مریخ پر تنہا چھوڑے جانے پر اس خلاباز کی زندگی صرف اپنی ذہانت اور محدود وسائل پر منحصر ہوتی ہے۔
یہاں وہ اپنے فضلے، آلوﺅں، زمین اور دیگر اشیا کو اپنی فصلیں اگانے کے لیے استعمال کرتا ہے. اب ہم آپ کے بارے میں تو نہیں جانتے مگر ہم نے کبھی بھی آلو کی کاشت کے عمل کو اتنا دلچسپ اور پرجوش نہیں پایا۔
دی مارشین میں زیادہ تر توجہ مریخ پر تنہا رہ جانے والے مارک، اس کے خلائی عملے جو خلاء میں نصف سفر طے کر چکا ہوتا ہے اور زمین پر موجود ناسا پر دی گئی ہے جو مارک کو بچانے کے لیے سوچ بچار میں مصروف ہوتا ہے۔
فلم میں مارک کی تنہائی کے لمحات کو دلچسپ بنایا گیا ہے جس کے لیے عقلمندانہ مزاح اور زبردست کردار نگاری کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئے۔
کوئی بھی تصور کرسکتا ہے کہ کسی شخص کو ایک صحرائی خلاء میں تنہا چھوڑ دینا اسے نفسیاتی الجھنوں سے جنگ پر مجبور کرسکتا ہے مگر حیرت انگیز طور پر اس فلم میں اس چیز کو نہیں لیا گیا، کم از کم ابتدائی طور پر۔
مشکل صورتحال میں پھنس جانے کے بعد مارک کی جانب سے ذہنی مضبوطی، سوجھ بوجھ، زندہ دلی اور اس بذلہ سنجی کا مظاہرہ نظر آتا ہے. اس فلم کو ایک غیر معمولی اداکار کی ضرورت تھی جو اپنی مہارت پر مکمل دسترس رکھتا ہو اور اس کی کارکردگی اتنی زبردست ہو جس کی پروڈیوسرز نے بھی توقع نہ کی ہو اور میٹ ڈیمین نے ایسا کیا ہے۔
ون مین شو کی طرح میٹ نے پوری فلم کو ایک پرمزاح مگر گرفت میں لے لینے والے موڑ کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔
فلم کے بیشتر حصے میں میٹ ڈیمین کیمرے سے بات کرتے ہوئے اپنے اقدامات کی وضاحت تصوراتی ناظرین کو کرتا ہے۔ یہاں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مارک کا بہادر کردار اکثر اوقات ذاتی عقیدے سے لڑنے لگتا ہے اور مذاق کو ایک ایسے میکنزم کے طور پر استعمال کرتا ہے جو اس کی ہمت بڑھا سکے۔
جب میٹ ڈیمین بکھرتا ہے تو ہم اس کے کردار میں اتنے کھو چکے ہوتے ہیں کہ ہم بھی ویسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں۔
دی مارشین کی ہدایت کاری ریڈلے اسکاٹ نے کی ہے جو اس سے پہلے بھی شاندار فلمیں جیسے گلیڈی ایٹر (2000)، روبن ہڈ (2010) اور ایکسوڈیوز: گاڈز اینڈ کنگز (2014) بنا چکے ہیں اور انہوں نے ہمارے عہد کی دو سب سے زیادہ بااثر سائنس فکشن فلمیں ایلین (1979) اور بلیڈ رنر (1982) کی بھی ہدایات دی ہیں۔
سائنس فکشن کی جانب واپسی پر ہمارے سامنے پہلے سے زیادہ اچھا ریڈلے اسکاٹ متعاف ہوا ہے جو ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں زیادہ حس لطافت کا اظہار کرتا ہے۔
اور ہاں دی مارشین یقیناً ہولی وڈ کے لمحات میں بلاک بسٹرز کی فہرست کو شیئر کرے گی کیونکہ آخر کار یہ ریڈلے اسکاٹ کی فلم ہے۔