ہندوستان نے خلائی تحقیقی سیٹلائٹ لانچ کر دیا
نئی دہلی: ہندوستان نے اپنی پہلی خلائی تحقیقی سیٹلائٹ ایسٹروسیٹ کو کامیابی سے زمین کے مدار میں لانچ کر دیا ہے۔
یہ لانچ 300 ارب ڈالر کی عالمی خلائی صنعت میں ہندوستان کا اثرو رسوخ بڑھانے کے وزیرِ اعظم نریندرا مودی کے منصوبے کے تحت کی گئی ہے.
ایسٹروسیٹ نامی اس سیٹلائٹ سے سائنسدان دور دراز خلائی اجسام کا معائنہ کر سکیں گے، جس سے ان کی خلائی تحقیق کا دائرہ وسیع ہو سکے گا۔
ہندوستانی کے وزیر برائے ارتھ سائنسز ہرش وردھن کے مطابق یہ لانچ فلکیاتی علوم کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے، اور انہیں امید ہے کہ اس سے انہیں نئی سائنسی تحقیق میں کافی مدد ملے گی۔
اس سیٹلائٹ کے ساتھ ساتھ دیگر 6 سیٹلائٹس بھی لانچ کی گئی ہیں جن میں سے 4 امریکا کی ہیں۔ یہ لانچ امریکی صدر بارک اوباما اور ہندوستانی وزیرِ اعظم نریندرا مودی کی طے شدہ ملاقات سے چند گھنٹے پہلے کی گئی۔
نریندرا مودی ہندوستان کے خلائی تحقیقاتی پروگرام کے بارے میں نہایت جارحانہ رویہ رکھتے ہیں، اور کئی مواقع پر اپنے سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کر چکے ہیں جنہوں نے گذشتہ سال نہایت کم قیمت سیٹلائٹ کو پہلی ہی کوشش میں سرخ سیارے مریخ کے مدار میں کامیابی سے داخل کر لیا تھا۔
دسمبر میں ہندوستان نے ایک نئے اور مزید طاقتور راکٹ Geosynchronous Satellite Launch Vehicle (GSLV) Mark III کا تجربہ کیا جو مزید بھاری سامان کو خلا میں لے جا سکتا ہے۔ فی الوقت یہ راکٹ آپریشنل نہیں ہے۔
ایسٹروسیٹ کو امریکی خلائی ادارے ناسا کی ہبل خلائی دوربین کا چھوٹا نمونہ قرار دیا جا رہا ہے، جسے 1990 میں لانچ کیا گیا تھا۔ ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ کے ماینک واہیا کے مطابق یہ سیٹلائٹ ایکسرے سمیت کئی دیگر روشنیوں میں خلائی اجسام کو دیکھ سکے گی، مگر اس کی کارکردگی بہرحال ہبل سے کم ہو گی۔
واہیا کا مزید کہنا تھا کہ اس سے کمرشل فائدہ تو نہیں ہوگا، مگر خلائی تحقیق کرنے کی ہندوستانی قابلیت ضرور دنیا کے سامنے آئے گی۔ 5 سالہ منصوبے کے تحت ایسٹروسیٹ ہندوستان کے جنوبی شہر بنگلور میں واقع ایک کنٹرول سینٹر کو اپنا ڈیٹا ارسال کرے گا، اور یہیں سے اس سیٹلائٹ کو کنٹرول کیا جائے گا۔