'مسلم ریاستوں پر حملہ کرنیوالوں کا اسلام سے تعلق نہیں‘
عرفات: سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل شیخ نے کہا ہے کہ مسلم ریاستوں پر حملہ کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، امت مسلمہ اختلافات بھلا کر ایک ہوجائے۔
مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے مفتی اعظم کا کہنا تھا کہ "یمن مں ایک گروہ گمراہی کے راستے پر گامزن ہے، گمراہ لوگوں نے مساجد کو بھی نہیں چھوڑا اور دین سے گمراہ یہ لوگ اسلام کے چہرے کو مسخ کر رہے ہیں۔"
واضح رہے کہ یمن میں حوثی باغیوں نے حکومت کا تختہ الٹ کر دارالحکومت پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز کیا گیا.
یہ بھی پڑھیں : مناسک حج کا آغاز، عازمین منیٰ پہنچنا شروع
شیخ عبدالعزیز آل شیخ نے مزید کہا کہ آج کے زمانے میں فتنہ پھیل چکا ہے اور داعش اسلام کے نام پر امت مسلمہ کو تباہ کرنے کی سازش کر رہی ہے.
ان کا مزید کہنا تھا کہ "اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کا ظلم حرام قرار دیا ہے".
خیال رہے کہ داعش نامی شدت پسند تنظیم نے شام اور عراق کے بڑے رقبے پر قبضہ کرکے الدولۃ الاسلامیہ کے نام سے خود ساختہ ریاست قائم کررکھی ہے جبکہ انھوں نے ابوبکر البغدادی کو اپنا خلفیہ مقرر کیا ہے.
2014 کا خطبہ حج: ’مسلم دنیا میں چلنے والی بعض تحریکیں انسانیت دشمن ہیں‘
فلسطین کے حوالے سے خطبہ حج میں شیخ عبدالعزیز آل شیخ کا کہنا تھا کہ یہودیوں نے انسانیت کو پامال کررکھا ہے اور مسجد اقصیٰ مسلمانوں کو پکار رہی ہے۔
سعودی مفتی اعظم نے کہا کہ اسلام کے دشمن مسلمانوں کو کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور گمراہ جماعتیں انسان کو پستی میں دھکیلنا چاہتی ہیں.
شیخ عبدالعزیز نے مسلمانوں کو تلقین کی کہ فساد پیدا کرنے والے گروہوں سے دور رہیں،اسلام کسی بے گناہ کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا،لہذا غیر مسلموں کو بھی قتل کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
انھوں نے دعا کی کہ جو مسلمان حالت جنگ میں ہیں، ان کے علاقوں میں اللہ امن قائم کر دے۔
2013 کا خطبہ حج : ’اسلام امن کی تعلیم دیتا ہے‘
شیخ عبدالعزیز آل شیخ نے خطبہ حج کے دوران مسلمانوں کو اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں سے باخبر رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان مخالف اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
علم کے حصول پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علم حاصل کر کے ہی اسلام دشمنوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور تمام مسلمان نظام تعلیم بہتر کرنے کی کوشش کریں۔
2012 کا خطبہ حج : ’اسلام جارحیت کی ممانعت اور امن کا درس دیتا ہے‘
مسلم حکمرانوں پر زور دیتے ہوئے شیخ عبدالعزیز آل شیخ نے کہا کہ مسلم حکمران اپنی رعایا کا خیال کریں اور کوشش کریں کہ مسلمانوں کے درمیان محبت قائم رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل زندگی آخرت کی ہی ہے، دنیاوی حیات عارضی ہے، قرآن اور حدیث کے مطابق زندگی گزارنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحیح دین اسلام ہی ہے۔
خیال رہے کہ 1941 میں پیدا ہونے والے سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیزبن عبداللہ آل شیخ کا یہ مسلسل 35 واں خطبہ حج تھا، انہوں نے 1981ء (1402ہجری) میں پہلی بار خطبہ حج دیا تھا جبکہ وہ 1999ء سے سعودی عرب کے مفتی اعظم ہیں۔
خطبہ حج کے بعد حجاج نے نماز ظہر و عصر ایک ساتھ ادا کی۔
عرفات میں دن بھر قیام اور سورج غروب ہونے کے بعد حجاج کرام کی اگلی منزل مزدلفہ ہوگی جہاں وہ مغرب اور عشاءکی نمازیں پڑھیں گے اور رات بھر قیام کریں گے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق رواں برس دنیا بھر سے 20 لاکھ سے زائد افراد حج کے لیے آئے ہیں۔
العربیہ نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق حج کے دوران ایک لاکھ اہلکار سیکیورٹی پر مامور کیے گئے ہیں۔
غلاف کعبہ کی تبدیلی
غلاف کعبہ کی تبدیلی ہر سال 9 ذوالحج کو عمل میں آتی ہے، رواں برس بھی غلاف کی تبدیلی عمل میں آئی۔
غلاف کی تیاری میں خالص ریشم، سونے اور چاندی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق کعبہ کا غلاف 670 کلو خالص ریشم سے تیار کیا گیا جو کہ 657مربع میٹر پر 47 حصوں پر مشتمل تھا۔
غلاف کی تیاری میں 165 کلو سونا اور چاندی استعمال ہوئی۔
اسلامی تاریخ میں پہلی بار فتح مکہ کی خوشی میں کعبے پر سیاہ غلاف چڑھایا گیا۔
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے تعمیر کعبہ کے ساتھ غلاف کا بھی اہتمام کیا تھا، ظہور اسلام سے پہلے بھی غلاف کعبہ کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔
19 ویں اور 20 ویں صدی عیسوی کی شروعات تک غلاف مصر میں تیار ہوتا تھا، 1962ء میں غلاف کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں بھی آئی۔
مناسک حج
مناسکِ حج کی ادائیگی کا سلسلہ 8 ذوالحج سے شروع ہوتا ہے جو 12 ذوالحج تک جاری رہتا ہے۔
8 ذوالحج کو عازمین مکہ مکرمہ سے منیٰ کی جانب سفر کرتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں۔
9 ذوالحج کو فجر کی نماز کے بعد عازمینِ حج منیٰ سے میدانِ عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں، جہاں وقوفہ عرفہ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
عرفات میں غروبِ آفتاب تک قیام لازمی ہے اور اس کے بعد حجاج کرام مزدلفہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں، جہاں پر مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں اور رات بھر یہاں قیام ہوتا ہے۔
10 ذوالحج قربانی کا دن ہوتا ہے اور عازمین ایک مرتبہ پھر مزدلفہ سے منیٰ آتے ہیں، جہاں قربانی سے قبل شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔
مزدلفہ سے منیٰ کا فاصلہ تقریباً نو کلو میٹر ہے اور یہاں پر عازمین مخصوص مناسک کی ادائیگی کرتے ہیں اور اس کے بعد حجاج کرام مکہ مکرمہ جاکر ایک طوافِ زیارت کرتے ہیں اور منیٰ واپس آجاتے ہیں۔
11 اور 12 ذوالحج کو تمام مناسک سے فارغ ہونے کے بعد عازمین ایک مرتبہ پھر مکہ مکرمہ جا کر مسجد الحرم میں الوداعی طواف کرتے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں