'جب ابو غلام علی کی غزل گاتے ہیں'
پدرِ بزرگوار حج کے لیے جا رہے تھے۔ ہرچند کہ عموماََ لوگ بڑھاپے میں حج کے لیے نکلتے ہیں مگر ابو کے بقول ان کے اچھے فیصلے ہمیشہ بروقت ہی ہوتے رہے ہیں۔ ان کی عمر صرف چالیس برس کی ہو گئی تھی مگر انہوں نے حجِ اکبر کا ارادہ کر لیا تھا۔ وہ ایک ایک کر کے ساری پرانی کیسٹیں ورانڈے میں پھینک رہے تھے تاکہ انہیں کوڑے کے ساتھ گھر سے نکال پھینکا جائے۔
ان کیسٹوں میں ملکہ ترنم نور جہاں، محمد رفیع صاحب، عزیز میاں قوال، صابری برادرز، ہندوستانی گیت مالا، لتا منگیشکر، گل چین ایرانی، مہدی حسن صاحب، اور شہنشاہِ غزل غلام علی صاحب کے گانے تھے، جنہیں برسوں بعد اب ابو کچرے میں پھینک رہے تھے اور ہم چپکے چپکے اپنی پسند کی کیسٹیں الگ کر رہے تھے۔ آخر میں جب ہم نے دیکھا تو سب سے زیادہ کیسٹس جو ہم نے چپکے سے الگ کر رکھی تھیں وہ شہنشاہِ غزل غلام علی صاحب کی تھیں۔
غلام علی صاحب کی آواز میں ہمارے لیے ایک عجیب کیفیت پوشیدہ ہے۔ شاید اس لیے کہ خاں صاحب ابو کے سب سے زیادہ پسندیدہ غزل سراؤں میں سے ایک تھے اور شاید اس لیے بھی کہ جب بھی ابو کسی برقی مشین کی مرمت کرنے کے لیے آلے اور اوزار بچھائے اپنے کام میں مصروف رہتے تو وہ ہمیشہ غلام علی صاحب ہی کا کوئی نہ کوئی گانا گنگنا رہے ہوتے۔ بقول احمد فراز صاحب:
کروں نہ یاد، مگرکس طرح بھلاؤں اسے؟
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے
وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند ،
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے
ابو کی سریلی آواز اور احساسات میں ڈوبے ان کے گنگنانے کے انداز سے ہمیں پکا یقین ہو گیا تھا کہ ابو بھی ہماری طرح اپنے جوانی میں سخت عاشق مزاج رہ چکے ہوں گے (آخر ابو کس کے ہیں)، مگر تھپڑ کے ڈر سے آج تک پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اب اگر ابو ہی اہلِ دل ٹھرے تو ہم سے کیا گلہ۔ فارسی میں محاورہ ہے کہ جو دیگچی میں ہے وہی کاسے میں آئے گا۔ وہ میر تقی میر کہتے ہیں نا کہ،
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر،
مذہبِ عشق اختیار کیا
اب اس میں ہمارا کیا قصور؟ خیر، اب سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ ابو کے ساتھ ساتھ ہم بھی غلام علی صاحب کے دلدادہ ہو گئے۔ مجھے ان کی اسٹوڈیو میں ریکارڈ شدہ غزلوں سے زیادہ ان کا زندہ/براہ راست ریکارڈنگ (لائیو پرفارمنس) سننا بہت پسند ہے، کیونکہ وہ اپنے گانوں میں جو نشیب و فراز، اٹھان، مرکیاں اور انگڑایاں لیتے ہیں، دل کی وہ حالت ہوتی ہے جو کافر محبوب کے بے جا ناز و ادائیں دیکھ کر عشاق کی ہوتی ہے۔ بقول فیض احمد فیض صاحب:
یہ رگِ دل وجد میں آتی رہے دکھتی رہے،
یونہی اس کی جا و بے جا ناز کی باتیں کرو
خاں صاحب کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہی غزل کو اگر وہ دس الگ محفلوں میں گائیں تو دس کی دس محفلوں میں آپ کو نیا پن سنائی دے گا۔ وہ ہمیشہ اپنی پرانی غزلوں میں کچھ نہ کچھ نیا ضرور سامعین کے لیے پیش کرتے ہیں۔ ان کی ایک مشہور غزل جو ناصر کاظمی صاحب کی لکھی ہوئی ہے وہ ہے:
دل میں اک 'لہر' سی اٹھی ہے ابھی،
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
اس غزل میں جب بھی لفظ 'لہر' کو خاں صاحب ادا کرتے ہیں تو نئے انداز سے ہی ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ خاں صاحب 'لہر' کی بہت ساری مختلف 'لہروں' کو ایسی 'لہر' عطا کیے دیتے ہیں جیسے ہر 'لہر' میں ایک منفرد 'لہر' بسی ہوئی ہے، کیونکہ اگر چشم عقیدت سے دیکھا جائے تو ایک 'لہر' ہمیشہ دوسرے 'لہر' سے مختلف ہی ہوتی ہے۔
اسی طرح خاں صاحب لفظوں کو مقدس اور معتبر گردانتے ہیں اور انہیں سمجھنے، محسوس کرنے اور ان کی درست ادائیگی میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ خود کہتے ہیں کہ لفظوں کے احترام اور ان کو انصاف دلانے کا شعور اور فن ناصر کاظمی صاحب سے سیکھا۔ "ناصر کاظمی صاحب ہر ایک لفظ کو بڑی عمدگی سے ادا کرتے تھے اور الفاظ کی ادائیگی میں ہماری بھی رہنمائی کرتے تھے۔"
یہ بات نا گفتنی نہ رہے کہ غزل ادائیگی کے دوران خاں صاحب کے چہرے کے تاثرات بھی کافی دیدنی ہیں۔ ادائیگی کے ساتھ ساتھ وہ چہرے پر ایسے دلکش اور نمکین مظاہرے پیش کرتے ہیں کہ مدھر سروں میں چاشنی اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ خاں صاحب کی ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ غزل ادائیگی کے دوران اشارتاََ اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے گفتگو کرتے رہتے ہیں۔
ان کا یہ قصہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ ان کی محفل میں ان کے دوست نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ آنا تھا۔ غزل کے دوران محفل میں خاں صاحب کے دوست اکیلے ہی داخل ہوتے ہیں تو خاں صاحب ان کو دیکھ کر غزل تو جاری رکھتے ہیں مگر اپنی انگلی کو ناک کے بالائی حصے پر لگا کر ہاتھ کو گول گھما دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ "بھابی کہاں ہیں؟". اگر ان کی زندہ محفلوں (لائیو پرفارمینس) کو دیکھیں تو غزل کے بیچوں بیچ بہت سارے عجیب و غریب اشارے نظر آئیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی سے اشارتاً مخاطب ہو کر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔
خاں صاحب نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہندوستان اور برِصغیر کے بہت سارے دوسرے ممالک میں بھی کافی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف اردو میں، بلکہ نیپالی، فارسی اور بہت ساری دوسری زبانوں میں غزل گا چکے ہیں۔ وہ گائیکی کے علاوہ طبلہ بجانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور ہارمونیم تو جیسے ان کی انگلیوں کے توسط سے ان کے گلے سے وصل ہے۔
انہوں نے نہ صرف احمد فراز، ناصر کاظمی، محسن نقوی، آغا بسمل، قتیل شفائی اور بہت سارے جدید شعراء کے کلام کوغزل کے شیدائیوں تک پہنچایا، بلکہ اردو ادب کے استادوں کے کلام کے لیے بھی کئی دھنیں بنا کر سامعیں کے لیے پیش کر چکے ہیں۔ مرزا غالب، میر تقی میر، مومن خان مومن، حسرت موہانی، بہادر شاہ ظفر، اکبر الہٰ آبادی، اور بہت سارے دیگر استادوں کے کلام کو بخوبی آزما چکے ہیں۔ ان کی سب سے مشہور غزل حسرت موہانی کی یہ غزل ہے:
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
تعجب کی بات یہ ہے کہ غلام علی صاحب سے پہلے دنیائے گائیکی میں ایک اور بہت ہی عظیم نام پہلے سے موجود ہے جس کا کوئی ثانی نہیں، اور وہ ہے استاد بڑے غلام علی خاں صاحب۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ غلام علی کے والد محترم نے ان کا نام استاد بڑے غلام علی خاں سے متاثر ہو کر ہی رکھوایا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ غلام علی بھی استاد بڑے غلام علی خاں کی طرح ایک بزرگ غزل سرا بن جائیں۔
اب قدرت کا کرشمہ کہیں یا خدائے بزرگ کا کھیل کہ وہ وقت بھی آجاتا ہے کہ جب غلام علی صاحب، استاد بڑے غلام علی خاں صاحب اور ان کے چھوٹے بھائیوں کے شاگردی میں منسوب ہوجاتے ہیں، جسے خاں صاحب اپنے زندگی کا سب سے حسین دور قرار دیتے ہیں۔
خاں صاحب کی شان میں اگر کوئی لکھنا چاہے بھی تو کہاں تک لکھے؟ قصہ مختصر کہ کچھ دن پہلے میں گھر کے ایک کمرے میں خاں صاحب کی غزل سنتے ہوئے اپنے کام میں مشغول تھا اور گھر کے دوسرے کمرے میں ابو گھر کی اِستری کی مرمت میں مصروف تھے۔ اسی اَثنا میں بجلی چلی گئی اور خاں صاحب خاموش ہو گئے۔ کیا سنتا ہوں کہ غزل کا اگلا انترہ میرے ابو اس انداز سے اٹھاتے ہیں کہ ماحول دوبارہ رومانویت کے گداز میں ڈوب جاتا ہے۔ اور غزل کے الفاظ بھی بالکل ماحول کے مطابق۔ گویا ابو فرما رہے ہوں کہ:
اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
تبصرے (5) بند ہیں