جنسی رویوں پر بات کرنا منع ہے
”میں نے آپ کا افسانہ پڑھا ہے، وہ گھر میں پڑھنے جیسا افسانہ نہیں ہے، میں اسے اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا۔“ یہ بات مجھے میرے افسانے پڑھنے والے ایک دوست نے کہی۔ اس افسانے میں میں نے ایک ایسے سماجی واقعے کو بیان کیا تھا جس میں کچھ جنسی عنصر شامل تھا۔
میں نے اپنے جواب میں اسے کہا کہ ”میں نے یہ افسانہ آپ کے خاندان کے لیے نہیں لکھا ہے بلکہ سماج میں رونما ہونے والے ایک واقعے کو بیان کیا ہے۔ اگر آپ اسے نہیں پڑھ سکتے تو نہ پڑھیں یا پھر سماج کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔“
ہمارے ہاں ادب میں جنسی پہلو کو صرف لذت کا عنصر سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ پہلو بھی سماج کی پیداوار ہے۔ اگرادب سماج کی پیداوار ہے تو اس میں جتنے بھی واقعات رونما ہوتے ہیں، ان سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ سفوکلیز کے لکھے ہوئے ڈرامے ”کنگ اوڈیپس” میں اس کے مرکزی کردار اوڈیپس کے ساتھ جو کھیل قسمت کھیلتی ہے، اس کے نتیجے میں وہ اپنی ماں سے شادی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مگر اس کا مقصد یہ نہیں کہ سفوکلیز نے کنگ اوڈیپس کے جنسی رجحانات کو ابھارنے کے لیے ایسی المیاتی صورتحال پیدا کی، جس کے بعد ادبی دنیا میں ہمیں ”اوڈیپس کامپلیکس“ اور ”الیکٹرا کامپلیکس“ جیسی اصطلاحات سننے اور سمجھنے کو ملیں۔
سعادت حسن منٹو تاحیات لوگوں کو یہ سمجھاتا رہا کہ اس کے افسانوں میں نظر آنے والی برائیاں ان کی نہیں بلکہ سماج کی پیدا کردہ ہیں اور اس نے جو دیکھا ہے، اسے ایسے ہی بیان کیا ہے۔ مگر انہیں بھی لوگ فحش نگار کے لقب القاب سے نوازتے ہیں۔ لوگوں کو آئینہ دکھانے والے منٹو نے کہا تھا ”زمانے کے جس دور سے ہم گذر رہے ہیں، اگر آپ اس سے واقف نہیں ہیں تو میرے افسانے پڑھیں۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب ہے کہ زمانہ برداشت کے قابل نہیں ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ اس دور کی برائیاں ہیں۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں ہے۔ جس نقص کو مجھ سے منسوب کیا جاتا ہے وہ درحقیقت موجودہ نظام کا نقص ہے۔“
بحیثیت ایک سماج ہمارا رویہ جنس کے حوالے سے عجیب و غریب ہے۔ حالانکہ یہ وہ حقیقت ہے جسے ہم جھٹلا دیتے ہیں مگر اس کا سامنا نہیں کرتے۔ ادب میں اسے بیان کرنے کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے وہ لکھاری لذت پسند ہے اور اسے ایسی تحریریں لکھنے میں مزا آتا ہے۔ خشونت سنگھ کا ناول "وومن ان مائے کمپنی" بھی کچھ ایسے ہی رویوں کو بیان کرتا ہے۔
عصمت چغتائی کا افسانا ”لحاف“ جنسی مسائل کو بیان کرتا ہے۔ اگر کوئی افسانہ یا ناول نگار اپنی تحریر میں جنسی مسائل کو بیان کرتا ہے تو ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ جنس کی ترغیب دے رہا ہے۔ وہ بے حیائی پھیلا کر سماج کو گندا کر رہا ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں نفسیاتی مریض کو پاگل کہا جاتا ہے اسی طرح سماج میں موجود جنسی رویوں پر بات کرنے کو جنسی بے راہ روی، اور انہیں اپنے افسانوں میں بیان کرنے والے لکھاری کو جنسیات کا مارا ہوا ذہنی مریض سمجھا جاتا ہے۔
ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے ایک بار اسی موضوع پہ بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”فن و ادب اس خیال آرائی کی صورت سے جنم لیتا ہے جس میں فنکار اپنی محرومیوں کا مداوا تلاش کرتے ہیں۔ ہوں تو روز خوابی اور خیال آرائی کی صورت میں سبھی لوگ اپنی تشنہ آرزوؤں کی تلافی کر لیتے ہیں، مگر فنکار اور عام آدمی میں فرق یہ ہے کہ عام آدمی خیال آرائی اور روز خوابی ہی پر اکتفا کرتا ہے جب کہ فنکار اپنی تخلیقی صلاحیت کے باعث خیال آرائی میں کھو کر نہیں رہ جاتا بلکہ مسرت بخش آرٹ کی صورت میں ہمارے لیے اپنی خیال آرائیوں کو محفوظ بھی کر لیتا ہے۔“
ہم یہ سوچ لیتے ہیں کہ جو تخلیق کار قلم کی جنبش سے سماج کے ایک ایسے پہلو کے بارے میں ہمیں بتا رہا ہے، جس پر بات کرنا ہمارے سماج میں ممنوع سمجھا جاتا ہے وہ سب سے بڑا مجرم ہے، مگر سگمنڈ فرائڈ تو نوزائیدہ بچے کے ماں سے تعلق کو بھی اسی نظریے سے دیکھتا ہے۔
ظاہر ہے اب ادب خلا میں تو تخلیق نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے محرکات ہمارے سماج میں ہی ہوتے ہیں۔ سماج میں موجود جتنے بھی مسائل ہیں ان کا تعلق کہیں نہ کہیں انسان کی نفسیاتی اور جنسی پریشانیوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ قحبہ خانوں میں جانے والے لوگ خود کو بھلے ہی پارسا سمجھتے ہوں مگر اگر کوئی افسانہ نگار انہی قحبہ خانوں اور وہاں کام کرنے والی عورتوں کے مسائل کی عکاسی اپنی تحریروں میں کرتا ہے تو اس پر جو سنگ باری ہوتی ہے، اس میں ان لوگوں نے بھی پتھر اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں جو خود ان مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔
تخلیقی عمل کے ذریعے جنسی رجحانات کو بیان کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عربی ادب کے مشہور و معروف شاعر نزار قبانی کے ساتھ بھی یہی مسائل رہے، انہوں نے جب بھی عورت کی آزادی کی بات کی اسے جنسی آزادی سے تعبیر کیا گیا۔ ان کی شاعری جہاں نوجوان لڑکے لڑکیوں میں خوب پسند کی جاتی تھی، وہیں ان کے ناقدیں نزار قبانی کی شاعری کو عریاں اور غیر معیاری کہہ کر رد کر دیا کرتے تھے۔
مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سماجی زندگی میں جنسی پہلو ختم ہو گئے ہیں؟ کیا ہمارا سماج بنا کسی جنسی عمل کے پنپتا اور پروان چڑھ رہا ہے؟ کیا جنسی مسائل اس سماج میں جنم نہیں لے رہے؟ ہم ادیبوں، افسانہ نگاروں اور نفسیاتی ماہرین کو گالیاں دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ سب غلط کہہ رہے ہیں، مگر اس حوالے سے سماج میں بڑھتے ہوئے مسائل کو ختم کرنے اور ان کے اسباب تلاش کرنے سے کتراتے ہیں۔
ہمارے ہاں جنس لفظ ذہن میں آتے ہی اسے جنسی عمل کے زمرے میں دیکھا جاتا ہے مگر یہ ایک رویے کا نام بھی ہے، جسے سماج میں موجود دیگر خامیوں کے زمرے میں پرکھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اسے پرکھا نہیں جائے گا، اس پر کھلے ذہن سے بات نہیں کی جائے گی، تب تک زیادتی کے واقعات رپورٹ کرنے کے بجائے انہیں قابلِ شرم قرار دے کر دبایا جاتا رہے گا، اور کئی زندگیاں برباد ہوتی رہیں گی۔
تبصرے (3) بند ہیں