پنجاب کی جیلوں میں 4 قیدیوں کو پھانسی
لاہور: پنجاب کے 4 اضلاع لاہور، بہاولپور، وہاڑی اور فیصل آباد میں جمعرات کی صبح 4 مجرموں کو پھانسی دے دی گئی۔
مجرموں کو تعز یرات پاکستان کی دفعہ 302/B کے تحت پھانسی دی گئی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز بھی پنجاب کی دو جیلوں میں 3 مجرموں کا پھانسی دی گئی تھی۔
کوٹ لکھپت جیل لاہور
لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں تنزیل احمد کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
شیخوپورہ کے تنزیل نے 2005 میں معمولی تلخ کلامی پر ایک شخص کو قتل کر دیا تھا۔
جرم ثابت ہونے پر ماتحت عدالت نے تنزیل کو پھانسی کی سزا سنائی، اعلی عدالتوں کی جانب سے فیصلہ برقرار رکھے جانے کے بعد صدر مملکت ممنون حسین نے رحم کی اپیل مسترد کر دی تھی۔
ڈسٹرکٹ جیل وہاڑی
ڈسٹرکٹ جیل وہاڑی میں بھی قتل کے ایک مجرم آصف عرف اچھو کو پھانسی دے دی گئی۔
آصف پر قریبی عزیز کو قتل کرنے کا الزام ثابت ہوا تھا،جس کو اس نے 1998 میں قتل کیا تھا۔
ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد
فیصل آباد کی ضلعی جیل میں قتل کے ایک اور مجرم کو پھانسی دی گئی۔
مجرم خالد نے 16سال قبل سمندری میں ایک شخص کو قتل کیا تھا۔
خالد نے 1999 میں ذاتی رنجش پر اشفاق نامی شخص کو ہلاک کیا تھا۔
سینٹرل جیل بہاولپور
بہاولپور کی سینٹرل جیل میں ایک مجرم کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔
مجرم عبد الشکور نے 2001 میں لین دین کے تنازع پر ایک شخص کو قتل کیا تھا۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت (13-2008) نے سزائے موت پر غیراعلانیہ پابندی عائد کررکھی تھی تاہم سانحہ پشاور کے بعد اس پر ایک مرتبہ پھر عمل درآمد شروع ہوا۔
پہلی پھانسی 19 دسمبر 2014 کو فیصل آباد کی ڈسٹرکٹ جیل میں 2 مجرموں عقیل احمد عرف ڈاکٹر عثمان اور ارشد مہربان کو دی گئی۔
دونوں مجرموں پر سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کے الزام تھا۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کی جانب سے سزائے موت کی بحالی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد کے بعد سےملک کی مختلف جیلوں میں اب تک 200 کے قریب مجرموں کو پھانسی دی جاچکی ہے۔
دسمبر 2014 میں حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں اعداد و شمار جمع کروائے گئے تھے جس کے مطابق پاکستان میں سزائے موت کے7 ہزار 135 قیدی موجود ہیں، جن میں سے پنجاب کے 6 ہزار 424، سندھ کے 355، خیبر پختونخوا کے 183، بلوچستان کے 79 اور گلگت بلتستان کے 15 سزائے موت کے قیدی شامل ہیں۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 8 ہزار سے زائد سزائے موت کے قیدی موجود ہیں۔
خیال رہے کہ دسمبر سے اگست کے دوران ماہ رمضان میں سزائے موت پر عملدر آمد نہیں کیا گیا تھا، البتہ ماہ رمضان کے بعد سے دوبارہ سزائے موت پر پابندی ختم کر دی گئی تھی۔
سزائے موت پر پابندی ختم ہونے کے بعد دسمبر سے اپریل کے درمیان 100 افراد کو پھانسی دی گئی جبکہ اب یہ تعداد 200 کے قریب ہے.