سبین قتل کیس: پولیس گواہوں کی سیکیورٹی کیلئے پریشان
کراچی: مرحوم سوشل ورکر سبین محمود قتل کے عینی شاہد اور ڈرائیور غلام عباس کے قتل کے بعد پولیس کو ہائی پروفائل کیسز کے گواہان کی سیکیورٹی کے حوالے سے خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔
بھٹائی کالونی کا رہائشی 48 سالہ پولیس کانسٹیبل وقتی طور پر سبین کے ڈرائیور کے طور پر کام کررہا تھا.
تاہم غلام عباس کے قتل کے بعد پولیس گواہان کو عارضی طور پر کسی حفاطتی مقام پر منتقل کرنے کا سوچ رہی ہے اور ملیر کنٹومنٹ کا علاقہ ان کی پہلی ترجیح ہے۔
ابتدائی طور پر قتل کو عام واقعے کے طور پر دیکھا جارہا تھا تاہم بعد میں مقتول غلام عباس کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات کے بعد اسے ’ہائی پروفائل کیس‘ سے جوڑ دیا گیا۔
مزید پڑھیں: سماجی کارکن سبین محمود کا ڈرائیور بھی قتل
کراچی پولیس کے چیف مشتاق مہر نے ڈان کو بتایا کہ ’قتل کی تفیتش کی جارہی ہے تاہم 90 فیصد یقین ہے کہ دونوں واقعات ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔‘
مشتاق مہر کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی تحقیقات کو عام قتل کے بجائے ہائی پروفائل کیس کے طور پر دیکھا جارہا ہے، اور ’شاید اس کا مقصد سبین محمود کیس کے عینی شاہد کو ختم کرنا تھا۔‘
واضح رہے کہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن اور دی سیکنڈ فلور (ٹی ٹو ایف) کے نام سے سوشل فورم کی بانی سبین محمود کو روان برس 24 اپریل کو اُس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ لاپتہ بلوچ افراد کے حوالے سے ایک سیمینار میں شرکت کے بعد اپنے دفتر سے نکل رہی تھیں۔
اس پروگرام میں صحافی، دیگر رضا کار اور بلوچ لاپتہ افراد کے حوالے سے آواز بلند کرنے والے عبدالقدیر بلوچ بھی شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سبین محمود سپرد خاک، قتل کا مقدمہ درج،امریکا کی مذمت
رواں سال جون میں پولیس نے مئ میں صفورہ گوٹھ کے قریب بس پر حملے میں 45 اسماعیلیوں کے قتل میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ان ملزمان نے سبین محمود کے قتل کا بھی اعتراف کیا ہے، جس کی وجہ سبین کی جانب سے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز، ویلنٹائن ڈے اور پردے کے حوالے سے کیے جانے والے خیالات کا اظہار بتایا گیا۔
سبین محمود قتل کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسران کے لیے ان کے ڈرائیور کا قتل تشویشناک ہے جبکہ غلام عباس کے قتل کی ایف آئی آر اب تک درج نہیں کی گئی ہے۔
اس خبر سے متعلق مزید جانیں: ’سبین مولاناعزیزکے خلاف مہم پر نشانہ بنی‘
علاقے کے ڈی ایس پی راؤ محمد اقبال کا کہنا ہے کہ غلام عباس قتل کیس کا واحد گواہ 9 سالہ لڑکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے شواہد جمع کیے جارہے ہیں۔
سی آئی ڈی کے انسداد دہشتگردی یونٹ کے سپرنٹنڈٹ پولیس (ایس پی) راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے غلام عباس کے قتل کی ہر پہلو سے تحقیقات ہونی چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "اس میں کوئی شک نہیں کے وہ (غلام عباس) سبین محمود قتل کیس کا عینی شاہد تھا اور اس نے ٹرائل کے دوران ملزمان کی شناخت کی تھی جبکہ اس نے تحقیقات کے ہر مرحلے میں مکمل مدد بھی فراہم کی ہے"۔
عمر خطاب کے مطابق جیسا کے وہ ملزمان کی نشاندہی کرچکا ہے اس لیے سبین محمود قتل کیس متاثر نہیں ہوگا تاہم غلام عباس کے قتل کے بعد ’دیگر ہائی پروفائل کیسز کے گواہان کی زندگیوں کو محفوظ کرنا اب اہم ہے۔‘