'ایلان کو دیکھ کر اپنا بیٹا یاد آیا'
استنبول: گذشتہ ہفتے ترکی کے ساحل پر شامی بچے ایلان کردی کی لاش کو دیکھ کر جہاں ہر آنکھ اشک بار ہوئی، وہیں اس بچے کو گود میں اٹھانے والے ترکی کے پولیس افسر کو بھی اپنے بیٹے کا خیال آیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی کی ڈوگن نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے محمد چپلق نے بتایا کہ جب انھوں نے اس بچے کی لاش ساحل پر دیکھی تو دعا کی کہ وہ زندہ ہو۔
"جب میں اس بچے تک پہنچا تو میں نے خود سے کہا، اے پروردگار! مجھے امید ہے یہ زندہ ہے، لیکن اُس (ایلان) میں زندگی کے کوئی آثار باقی نہیں تھے، مجھے بہت مایوسی ہوئی"۔
"میرا بھی ایک 6 سال کا بیٹا ہے، جب میں نے اس بچے کو دیکھا تو میرے ذہن میں اپنے بچے کا خیال آیا اور میں نے خود کو اُس بچے کے والد کی جگہ پر محسوس کیا، اس اداس اور المناک منظر کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا"۔
پولیس افسر کے مطابق انھیں اس تصویر کے بارے میں علم نہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل گئی، "میں بس اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا"۔
مزید پڑھیں:شامی بچے کی دل لرزا دینے والی تصویر
ایلان کردی نامی بچہ اُن 12 شامی پناہ گزینوں میں سے ایک ہے جنھوں نے یونان پہنچنے اور وہاں ایک بہتر زندگی کے حصول کے لیے سمندر میں موت کا سفر کیا اور کشتی ڈوب جانے کے باعث جان کی بازی ہار گئے.
یہ تمام مسافر شامی کرد تھے جنھوں نے گذشتہ برس اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے شدت پسندوں کی وجہ سے ترکی میں پناہ لی تھی.
3 سالہ ایلان، اس کے 4 سالہ بھائی غالب اور والدہ کی تدفین گذشتہ جمعے کو شام کے علاقے کوبانی میں کردی گئی۔
بچوں کے والد عبداللہ کردی حادثے میں محفوظ رہے اور انھوں نے شام میں اپنے آبائی علاقے کوبانی میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:'ڈیڈی پلیز مرنے نہ دینا'
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ترکی سے بذریعہ سمندر یونان جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور کشتیاں ڈوبنے کے واقعات بھی میڈیا پر آتے رہتے ہیں، لیکن ایلان کردی کی المناک موت نے یورپی عوام کو ہلا کر رکھ دیا، جس کے بعد یورپی یورپین پر اس حوالے سے اقدامات کرنے پر دباؤ ڈالا گیا۔
تبصرے (1) بند ہیں