• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

نقلی بندوقیں، اصلی دہشتگردی

شائع August 29, 2015 اپ ڈیٹ August 31, 2015
بچوں کے ہاتھوں میں موجود حقیقی لگنے والی کھلونا بندوقوں کو معاشرے میں قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ — AP/File
بچوں کے ہاتھوں میں موجود حقیقی لگنے والی کھلونا بندوقوں کو معاشرے میں قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ — AP/File

اس عید پر میں ناظم آباد کی پرانی گلیوں میں گھومتے ہوئے اپنے دادا دادی کے زمانے سے وہاں رہنے والے عزیز و اقارب سے مل رہا تھا۔ اس دن میں ایک چیز نوٹ کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ یہ چیز نہ ہی گھروں میں چلنے والے جنریٹروں کی آوازیں تھیں، اور نہ ہی چھوٹے پلاٹس پر فلیٹوں کی عمارتیں۔

یہ کلک جیسی آواز ہوتی جس کے ساتھ ہی بچوں کی آوازیں بھی بلند ہوتیں۔ میں جس گلی میں بھی جاتا مجھے یہ آوازیں سنائی دیتیں۔ کلک کی اس آواز کے ساتھ کسی بچے کی آواز آتی جسے چھرہ لگا ہوتا۔ ان گلیوں میں تھوڑی دیر گھومنے پر ہی میں نے اتنی کھلونا بندوقیں دیکھیں جتنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔

میں نے ہر دوسرے بچے کو ہاتھ میں چھرے والی بندوق اٹھائے ہوئے دیکھا۔ کلک کلک کلک۔ ان بچوں کے نشانوں سے بچتا بچاتا میں جب ایک طرف ہوا تو مجھے اندازہ ہوا کہ کس طرح والدین، اساتذہ، اور معاشرے سے بچوں میں ہمدردی اور محبت کے بجائے منفی رجحانات اور زندگی کی ناقدری منتقل ہو رہی ہے۔ ہم خود اپنے ارد گرد بندوق کلچر کو فروغ دے رہے ہیں اور خود ہی انتہائی منافقت سے اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔

مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کبھی اتنی حقیقی کھلونا بندوقیں دیکھی ہوں۔ پلاسٹک کے رنگ برنگے کھلونوں یا پانی والی بندوقوں سے 'کاؤبوائز اینڈ انڈینز' کھیلنا الگ بات تھی، لیکن بچوں کے ہاتھوں میں اصلی دکھنے والی یہ فوجی طرز کی بندوقیں الگ بات ہے۔

چند ماہ پہلے ہی پنجاب میں دو لڑکے کھلونا بندوق کے ساتھ سیلفی لے رہے تھے کہ ایک پولیس اہلکار نے ان پر فائرنگ کر دی جس سے ایک لڑکا ہلاک ہوگیا۔ یہ بھیانک واقعہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ بندوقوں کے ساتھ قربت معاشرے پر کس بری طرح اثرانداز ہوسکتی ہے۔

لڑکے کھلونا بندوق کے شوقین تھے، پولیس سمجھی کہ وہ حقیقی بندوق ہے اور ان پر گولی چلا دی (اس ردِ عمل کا جواز تب بھی نہیں بنتا جب بندوقیں اصل ہوں۔ فائرنگ کر کے پولیس نے اسلحے کے ناجائز استعمال کے اپنے رجحان کی بھی عکاسی کر ڈالی۔

بندوقوں سے ہماری قربت کا ایک اور واقعہ خیبر پختونخواہ میں اساتذہ کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دینا تھا۔ اس سے وہی ہوا جس کا کئی لوگوں کو پہلے سے خوف تھا: سوات میں ایک اسکول کا شاگرد حادثاتی طور پر مارا گیا۔

اسی لیے میں نے اس مہینے کے شروع میں سندھ اسمبلی میں کھلونا بندوقوں پر پابندی کے حق میں پاس ہونے والی قرارداد کی حمایت کی تھی۔ قانون ساز اور سول سوسائٹی کے ممبران پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بھی ایسی ہی پابندیوں کے لی کام کر رہے ہیں۔

ہم اس طرح کے اقدامات کو بے فائدہ قرار دے کر مسترد کر سکتے ہیں کہ ان سے حقیقی بندوقوں کی مدد سے ہونے والی حقیقی دہشتگردی نہیں روکی جا سکتی۔ لیکن ہم نے اب ٹارگٹ کلرز کو پڑھے لکھے اور مالدار گھرانوں سے نکلتے دیکھا ہے، اور حقیقی دہشتگردی انہی گلیوں میں ہو رہی ہے جس میں ہمارے بچے کھیلتے ہیں۔

اچھے اور برے کے درمیان فرق مزید دھندلا ہے کیونکہ ہم ایسے وقت میں رہتے ہیں جب اچھائی کے پاس بھی اسلحے کا اپنا ذخیرہ ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ اسلحہ صرف ایک ضروری برائی ہے، مگر زندگی گزارنے کا نارمل انداز نہیں۔ تشدد اور جارحیت کو اچھا بنا کر پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔

ورنہ ہم صرف اسلحے سے موت کے بارے میں غیر حساس ہوتے جا رہے ہیں جس سے ہمارے بچوں کے ذہنوں کے لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں رہے گی۔ ہمارے بچوں کا بچپن بغیر تشدد کے ہونا چاہیے تاکہ وہ بڑے ہو کر محبت کرنے والے بنیں۔

انگلش میں پڑھیں.

سید معاذ شاہ

سید معاذ شاہ ایک فری لانس لکھاری ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر SmuazShah@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Aug 29, 2015 09:01pm
کھلونا بندوقوں پر پابندی کی باتیں کر کے انسانی ہمدردی کی پینگھیں آسمان تک لے جا سکتی ہیں لیکن حقیقت میں ایسی پابندی بچوں کے حقوق پر ڈاکہ ہونے کے ساتھ پاکستان کے حالات کے خلاف بات ہے۔ جہاں آئے روز دن دھاڑے ڈاکے پڑتے ہوں، جہاں نصف درجن دہشتگرد آتشیں اسلحہ سے لیس ہو کر کہیں بھی حتیٰ کہ سیکورٹی اداروں میں دہشتگردی کرتے ہوں، جہاں ٹریفک سگنلز پر شہریوں کو گن پوائنٹ پر لوٹ لیا جاتا ہو، جہاں جنگل کا قانون ہو، وہاں پر کھلونا بندوقوں کو کُوسنا بندوقوں والوں، دہشتگردوں، ڈاکوؤں، چوروں، لچوں لفنگوں کو فری ھینڈ دینے کی ترغیب دینا ہے، جرائم پیشہ گروہوں کے آگے نہتے پیش کرنا ہے۔ اچھا اگر کھلونا بندوقوں پر پابندی لگا دیں تو ٹی وی فلموں ڈراموں کارٹونز میں بچے بندوقیں نہیں دیکھیں گے؟ کیا ٹی وی کو توڑ بھن دیا جائے؟ انٹرنیٹ میں پورن فلمیں ہیں تو معاشرہ کو پاک صاف یا آسمان سے اترا بنانے کے لیے اسے بند کر دیا جائے؟ پھر میں ڈان بلاگ ڈیسک کو تبصرہ کیسے بھیجوں گا؟ بات صرف کھلونا بندوقوں کے ساتھ بچوں کی تربیت کی ہے۔ اچھی تربیت اور ٹریننگ ساتھ دی جائے تو کھلونا بندوقیں ایک تیر سے کئی شکار کے قابل ہو سکتی ہیں۔
یمین الاسلام زبیری Aug 29, 2015 11:03pm
یہاں بے جا نہ ہوگا اگر میں یہ بیان کروں کہ جب میں ۲۰۱۰ میں امریکہ سے کراچی آیا تھا تو میں اپنے عم زاد کے ہاں ان سے ملنے گیا تھا۔ ان کی بیوی ایک اسکول میں استانی تھیں اور اب بھی ہیں۔ ان کے گھر میں نے ایک الف با کا قائدہ دیکھا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے آخری صفحے پر ہر قسم کے جدید ہتیار بنے ہوئے تھے اور ان کے نیچے ان کے نام بھی لکھے ہوئے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی ہے جو ایک منصوبے کے تحت ہمارے ہاں ہتیاروں کو عام کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں انتظامیہ کیا کر رہی ہے؛ ہم اب تک کسی 'کریک ڈائون' کے منتظر ہیں۔
Mohammad Ayub Khan Aug 30, 2015 10:39am
aap ki baat bhi sahih hey
Mohammad Ayub Khan Aug 30, 2015 10:40am
@نجیب احمد سنگھیڑہ aapbhi sahih kehtey heyN
Mohammad Ayub Khan Aug 30, 2015 10:40am
@یمین الاسلام زبیری aap bhi shahih kehtey heyN --

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024