نقلی بندوقیں، اصلی دہشتگردی
اس عید پر میں ناظم آباد کی پرانی گلیوں میں گھومتے ہوئے اپنے دادا دادی کے زمانے سے وہاں رہنے والے عزیز و اقارب سے مل رہا تھا۔ اس دن میں ایک چیز نوٹ کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ یہ چیز نہ ہی گھروں میں چلنے والے جنریٹروں کی آوازیں تھیں، اور نہ ہی چھوٹے پلاٹس پر فلیٹوں کی عمارتیں۔
یہ کلک جیسی آواز ہوتی جس کے ساتھ ہی بچوں کی آوازیں بھی بلند ہوتیں۔ میں جس گلی میں بھی جاتا مجھے یہ آوازیں سنائی دیتیں۔ کلک کی اس آواز کے ساتھ کسی بچے کی آواز آتی جسے چھرہ لگا ہوتا۔ ان گلیوں میں تھوڑی دیر گھومنے پر ہی میں نے اتنی کھلونا بندوقیں دیکھیں جتنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔
میں نے ہر دوسرے بچے کو ہاتھ میں چھرے والی بندوق اٹھائے ہوئے دیکھا۔ کلک کلک کلک۔ ان بچوں کے نشانوں سے بچتا بچاتا میں جب ایک طرف ہوا تو مجھے اندازہ ہوا کہ کس طرح والدین، اساتذہ، اور معاشرے سے بچوں میں ہمدردی اور محبت کے بجائے منفی رجحانات اور زندگی کی ناقدری منتقل ہو رہی ہے۔ ہم خود اپنے ارد گرد بندوق کلچر کو فروغ دے رہے ہیں اور خود ہی انتہائی منافقت سے اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔
مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کبھی اتنی حقیقی کھلونا بندوقیں دیکھی ہوں۔ پلاسٹک کے رنگ برنگے کھلونوں یا پانی والی بندوقوں سے 'کاؤبوائز اینڈ انڈینز' کھیلنا الگ بات تھی، لیکن بچوں کے ہاتھوں میں اصلی دکھنے والی یہ فوجی طرز کی بندوقیں الگ بات ہے۔
چند ماہ پہلے ہی پنجاب میں دو لڑکے کھلونا بندوق کے ساتھ سیلفی لے رہے تھے کہ ایک پولیس اہلکار نے ان پر فائرنگ کر دی جس سے ایک لڑکا ہلاک ہوگیا۔ یہ بھیانک واقعہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ بندوقوں کے ساتھ قربت معاشرے پر کس بری طرح اثرانداز ہوسکتی ہے۔
لڑکے کھلونا بندوق کے شوقین تھے، پولیس سمجھی کہ وہ حقیقی بندوق ہے اور ان پر گولی چلا دی (اس ردِ عمل کا جواز تب بھی نہیں بنتا جب بندوقیں اصل ہوں۔ فائرنگ کر کے پولیس نے اسلحے کے ناجائز استعمال کے اپنے رجحان کی بھی عکاسی کر ڈالی۔
بندوقوں سے ہماری قربت کا ایک اور واقعہ خیبر پختونخواہ میں اساتذہ کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دینا تھا۔ اس سے وہی ہوا جس کا کئی لوگوں کو پہلے سے خوف تھا: سوات میں ایک اسکول کا شاگرد حادثاتی طور پر مارا گیا۔
اسی لیے میں نے اس مہینے کے شروع میں سندھ اسمبلی میں کھلونا بندوقوں پر پابندی کے حق میں پاس ہونے والی قرارداد کی حمایت کی تھی۔ قانون ساز اور سول سوسائٹی کے ممبران پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بھی ایسی ہی پابندیوں کے لی کام کر رہے ہیں۔
ہم اس طرح کے اقدامات کو بے فائدہ قرار دے کر مسترد کر سکتے ہیں کہ ان سے حقیقی بندوقوں کی مدد سے ہونے والی حقیقی دہشتگردی نہیں روکی جا سکتی۔ لیکن ہم نے اب ٹارگٹ کلرز کو پڑھے لکھے اور مالدار گھرانوں سے نکلتے دیکھا ہے، اور حقیقی دہشتگردی انہی گلیوں میں ہو رہی ہے جس میں ہمارے بچے کھیلتے ہیں۔
اچھے اور برے کے درمیان فرق مزید دھندلا ہے کیونکہ ہم ایسے وقت میں رہتے ہیں جب اچھائی کے پاس بھی اسلحے کا اپنا ذخیرہ ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ اسلحہ صرف ایک ضروری برائی ہے، مگر زندگی گزارنے کا نارمل انداز نہیں۔ تشدد اور جارحیت کو اچھا بنا کر پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔
ورنہ ہم صرف اسلحے سے موت کے بارے میں غیر حساس ہوتے جا رہے ہیں جس سے ہمارے بچوں کے ذہنوں کے لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں رہے گی۔ ہمارے بچوں کا بچپن بغیر تشدد کے ہونا چاہیے تاکہ وہ بڑے ہو کر محبت کرنے والے بنیں۔
تبصرے (5) بند ہیں