بظاہر ہم سب ایک ہیں مگر...
برابری، پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں دولت چند گھرانوں کی میراث ہے، وہاں بس یہ ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ وہ پہلے 22 خاندان تھے سنا ہے پھر 222 ہوگئے۔ چند ہزار بھی ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ میں کوئی سوشل سائنسدان نہیں کہ آپ کو اعداد و شمار کے ساتھ بتاؤں کہ پاکستان کی مڈل کلاس اب کم سے کم ہوتی جا رہی ہے اور سفید پوشوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مگر ایک ایسے ملک میں رہنے کی بناء پر، جہاں مساوات کی بنیاد پر ایک معاشرہ قائم ہے، مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں اپنے وطن کے لوگوں کے لیے بھی کوئی ایسا ہی خواب بن سکوں۔
آپ کہیں گے کہ یہ مساوات تو اسلام نے دی تھی جو یورپ یا سکینڈے نیویا نے اپنا لی۔ یہ تو ہمارے نبی ﷺ کی سنت ہے، یہ تو حضرت عمر فاروق کا قانون ہے۔ آپ ایسی بے شمار دلیلوں سے ثابت کریں گے کہ یہ اقدار ہماری ہیں کسی غیر کی نہیں۔ لیکن میں ہماری انہی اقدار پر عمل پیرا ہونے کی بات کرتا ہوں۔
کیا مشکل ہے کہ نظام تعلیم سب کے لیے ایک سا ہو، روزگار کے مواقع برابر ہوں اور جو کمزور ہو حکومت اس کی مدد کرے۔ جان و مال ریاست کی ذمہ داری ہو، ریاست بیماروں، ناداروں، بے سہاروں، اور بزرگوں کی نگہبان ہو۔ آپ نے ایسی ریاستوں کا تذکرہ کتابوں میں سنا ہوگا لیکن ایسی اقدار کی حامل ریاستیں دنیا میں موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے نظام میں کچھ خامیاں ہوں، کہیں کہیں وہ اپنی نسل کے لوگوں کو دوسری قوموں پر فوقیت دیتے ہوں لیکن بحثیت مجموعی مساوات کے اصول پر مبنی اقدار پر چلنے والی ریاستوں میں سکینڈے نیویا، ناروے، سویڈن اور ڈنمارک بہت حد تک برابری کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔
کم آمدنی رکھنے والے افراد کی مدد حکومت کرتی ہے۔ جیسے اگر آپ کی آمدن 20 ہزار کرون (1 کرون = 16 پاکستانی روپے) سے کم ہے اور آپ کا ایک کنبہ ہے تو میونسپلٹی آپ کے گھر کے کرائے میں آپ کی مدد کرتی ہے۔ یہ مدد آپ کے کرائے کا 20 سے 30 فیصد تک ہوتی ہے۔ اگر آپ کا کنبہ بڑا ہے تو مدد کا تناسب اور بڑھ جاتا ہے۔ اگر آپ آمدن کے لحاظ سے نچلے طبقے میں ہیں تو آپ کے بچوں کو حکومت کی طرف سے وظیفہ ملتا ہے اور اسکول کی فیس بھی نہیں ہوتی۔ لیکن جوں ہی آپ کی آمدن بڑھتی ہے، آپ کے کرائے کی مد میں ملنے والی چھوٹ اور بچوں کے لیے ملنے والے پیسے بھی ملنے بند ہو جاتے ہیں۔
آپ کی تنخواہ پر ٹیکس 37 فیصد ہے اور اگر آپ شادی شدہ ہیں تو آپ کو ٹیکس میں بھی چھوٹ ملتی ہے۔ اگر آپ کا گھر آپ کے کام کی جگہ سے دور ہے تو ابتدائی 12 کلومیٹر کے بعد ہر کلومیٹر پر آپ کو آپ کے ٹیکس سے چھوٹ ملتی ہے۔ جیسے پچھلے سال کی اس رعایت کی شرح فی کلومیٹر ایک کرون دس اوورے تقریباً تھی۔ میرا گھر شہر سے باہر ہے اور مجھے ہر کام والے دن کی یومیہ رعایت تقریباً ایک سو نو کرون ہے۔
آپ ڈاکٹر کے پاس مفت جا سکتے ہیں، آپ کے شناختی کارڈ کے ساتھ ہی آپ کو ایک ذاتی ڈاکٹر الاٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس ڈاکٹر کا آپ کے گھر کی قریبی حدود میں ہونا ضروری ہے۔ یہ ایک جنرل فزیشن قسم کا ڈاکٹر ہوتا ہے۔ اگر آپ کا مسئلہ کسی گہری نوعیت کا ہے تو آپ کا ڈاکٹر آپ کو کسی متعلقہ ماہر کے پاس روانہ کر دیتا ہے۔ یہ متعلقہ ماہر اور عام ڈاکٹر بغیر کسی فیس کے آپ کا چیک اپ کرتے ہیں۔ بس آپ کو دوائی خود سے خریدنی ہوتی ہے۔ دوائی کی قیمت اگر سالانہ حد دو ہزار کرون سے بڑھ جائے تو آپ کو خودکار نظام کے ذریعے ادویات کی قیمت میں چھوٹ ملنا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر مریض کو کوئی ایسا مرض لاحق ہے کہ اسے ہسپتال داخل ہونا پڑے تو اسپتال کا خرچہ، ہر قسم کے تشخیصی ٹیسٹ اور دوائیاں سب حکومت کے ذمہ ہیں۔
ہر قسم کے مزدور ایک کم از کم حد سے زیادہ تنخواہ پاتے ہیں جو آج کل کے حساب سے ایک سو دس کرون فی گھنٹہ ہے۔ اگر آپ دفتر کے کلرک ہیں یا جھاڑ پونچھ والے، تو آپ کی تنخواہ برابر ہے۔ مختلف پیشوں کی تنخواہ تقریباً ایک جیسی ہی ہے۔ ایک حجام، مالی، سفیدی کرنے والا، بڑھئی، ان سب کی تنخواہ عمومی طور پر کسی بھی دفتر میں کام کرنے والے شخص کے برابر ہے، اس لیے کوئی بھی پیشہ کم تر نہیں سمجھا جاتا۔ لوگ میٹرک طرز کے امتحان کے بعد کسی بھی پیشے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایک حجام بننے کے لیے بھی 3 سے 4 سال کی تعلیم درکار ہوتی ہے۔ جی ہاں، اور یہ تعلیم بھی سرکار کے ذمہ ہے، اور دورانِ تعلیم آپ کو حکومت کی طرف سے وظیفہ بھی ملتا ہے۔
جوں جوں آپ کی تنخواہ میں اضافہ ہوتا ہے توں توں آپ پر لگنے والے ٹیکس میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ زیادہ تر نوکری پیشہ افراد دولت کے حوالے سے بہت زیادہ فرق نہیں رکھتے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایسے معاشرے میں کیا بھونچال آتے ہوں گے جس کی بنیاد مساوات کے ستونوں پر رکھی گئی ہو۔
ہمارے معاشرے کا جائزہ لیجیے۔ کہنے کو سب برابر ہیں، کہنے کو ہم میں برہمن اور شودر کا کوئی فرق نہیں، لیکن عملی طور پر ہمارا معاشرہ بری طرح مختلف طبقات میں تقسیم ہے۔ اپنے دفتر میں نظر دوڑائیے ہر پیشے کے ساتھ ایک نیا طبقہ جنم لیتا ہے۔ آفیسرز، کلرک، چپراسی، جھاڑو دینے والا، ہر ایک کی تنخواہ اور طبقہ الگ ہے۔ بڑھئی، حجام، رنگ ساز کس کس کی کمائی برابر ہے؟ اسکول، اور ہسپتال کس کس پر مفت ہیں؟
جی ہاں ہمارے ملک کی آبادی بہت ہی زیادہ ہے اور وسائل بہت ہی تھوڑے، وہ بھی درست طریقے سے استعمال نہیں کیے جاتے، اس لیے ہمارے ہاں امیر اور غریب میں بے حد فرق ہے۔ اسی لیے اس غیر متوازن معاشرے میں بھونچال آتے رہتے ہیں۔ لوگوں کی ضروریات ان کو چور اور ڈاکو بنا دیتی ہیں اور ہمارے معاشرے کے جھوٹے معیارِ عزت ان کو چور دروازوں کی تلاش پر مجبور کرتے ہیں۔ آخر کیوں پی آئی اے کی معتبر نوکری کرنے والے موبائل فون اسمگل کر کے پیسہ کمانا چاہتے ہیں، لوگ کسی اور کے گھر کی روشنی چرا کر اپنا مکان روشن کرنا چاہتے ہیں، چار پانچ ہزار روپے کا موبائل فون چھیننا چاہتے ہیں، اس لیے کہ وہ برابری چاہتے ہیں، معاشرے کے نام نہاد عزت والوں کی برابری۔
ہاں یہ مشکل ہے لیکن خواہش تو کی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں لوگ کسی روز مساوات کے درس کو جان پائیں گے۔ جس دن وہ جان جائیں گے اس دن ان کو اپنی مرسیڈیز کے ساتھ دو چوکیدار کھڑے کرنے کی ضرورت نہ رہے گی۔ 10 ہزار ماہانہ کمانے والے باورچی سے 10 ہزار کی ایک ڈش کھانے والوں کو علم نہیں کہ وہ اپنی محرومی کو مٹانے کے لیے آپ کو کیا کھلاتا ہے۔ یا آپ کی مہنگی گاڑی پر کسی نے چابی سے لکیر پھیری یا کوئی من چلا پتھر مار کر بھاگ گیا۔ لوگوں کی محرومیوں کو کیا نام دیں گے؟
مجھے لگتا ہے برابری بھی ایک ریت کا بت ہے اور دور سے قاسمی صاحب کی آواز سنائی دیتی ہے
ریت سے بت نہ بنا
میرے اچھے فنکار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو ہاتھ آتا ہے
جتنے افکار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں۔
تبصرے (5) بند ہیں