ہندوستان مذاکرات سے فرار، مگر کیوں؟
ہندوستان اور پاکستان کے مابین طے شدہ مذاکرات ایک مرتبہ پھر منسوخ ہوگئے ہیں، جس کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان دوستی کے بجائے دشمنی کا ماحول پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
ہندوستان کی جانب سے عائد کردہ شرائط کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان نے کہا ہے کہ ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج کی پیش کردہ شرائط کے تحت مذاکرات ہوئے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
دونوں ممالک کے مابین طے شدہ مذاکرات سے ایک دن پہلے ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان پاک ہند مذاکرات میں کسی کو بھی تیسرا فریق نہیں مانتا۔ سشما سوراج نے یہ باور کروایا کہ اگر پاکستانی وفد مذاکرات سے پہلے کشمیری حریت لیڈروں سے ملاقات کرتا ہے تو ہندوستان پاکستان سے مذاکرات نہیں کرسکتا۔
ہفتہ کے روز ہی وزیر اعظم کے مشیر برائے سیکیورٹی و امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوستان سے غیر مشروط مذاکرات چاہتے ہیں اور پیشگی شرائط کے بغیر ہندوستان جانے کے لیے تیار ہیں۔
ہندوستانی حکومت کا مؤقف ہے کہ اوفا میں ہونے والے معاہدے میں کشمیر کا ذکر نہیں تھا، جبکہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ اوفا میں تمام حل طلب معاملات پر مذاکرات کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا اور کشمیر اس میں سرِ فہرست ہے۔
مذاکرات منسوخ ہونے سے قبل ہندوستان کی دوسری شرط تھی کہ ہندوستان صرف دہشتگردی پر مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔
دراصل ہندوستان مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتا۔ ہندوستان کے نزدیک اس کی سرزمین پر ہونے والی تمام دہشتگردی میں پاکستان میں ملوث ہے لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات صرف دہشتگردی پر ہوں، اور میں پاکستان پر خوب دباؤ ڈال کر اسے دیوار سے لگایا جا سکے۔
اچنبھے کی بات یہ بھی ہے کہ جو دہشتگردی ہندوستان 7 لاکھ فوج کے ذریعے کشمیر میں کر رہا ہے، اسے وہ مذاکرات کا حصہ بنانا ہی نہیں چاہتا۔
ہندوستان مذاکرات میں تیسرا فریق کشمیری حریت رہنماؤں کو کہتا ہے، جو کہ یقیناً ہیں بھی۔ مگر پاک ہند مذاکرات میں صرف پاکستانی وفد نے ہی شرکت کرنی تھی۔ پھر ہندوستان کو پاکستانی وفد کی حریت رہنماؤں سے ملاقات ہضم کیوں نہیں ہو رہی؟ پاکستانی وفد دورہِ ہندوستان سے پہلے یا اس کے دوران جس سے مرضی ملے، ہندوستان کو اس سے کیا؟
اس کے علاوہ اگر ہندوستان کو پاکستانی رہنماؤں کی کشمیری لیڈروں سے ملاقات اتنی ہی دُکھتی ہے تو وہ کیوں ہندوستانی پاسپورٹس پر انہیں پاکستان آنے کی اجازت دیتا ہے؟ ہندوستان کو اس وقت اعتراض کیوں نہیں ہوا جب 23 مارچ کو پاکستانی ہائی کمیشن میں ہونے والی تقریب میں یہی کشمیری رہنما شریک ہوئے تھے، جس میں ہندوستانی حکومت کی نمائندگی سابق ہندوستانی آرمی چیف اور وزیر جنرل وی کے سنگھ نے کی تھی۔
دوسرا اگر ہندوستان کو پاکستان اتنا ہی نا پسند ہے تو وہ مسئلہ کشمیر پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے بجائے کشمیریوں کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے دے۔ اپنی 7 لاکھ فوج کشمیر سے نکال لے اور کشمیر میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ریفرنڈم کروا کر اس دہائیوں پرانے مسئلے کو ختم کرے۔
کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ بھی بِلی (ہندوستان) کے ڈر سے چُھپ کر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے علاوہ سارک بھی کشمیر کے معاملے پر خاموش ہے۔ سب سے بڑھ کر پوری دنیا میں انسانی حقوق کا علمبردار امریکا بھی ہندوستان پر کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے زور نہیں دیتا۔ مذاکرات منسوخ ہونے پر واشنگٹن نے مایوسی کا اظہار تو کیا مگر ہندوستان کو مذاکرات کے لیے مجبور نہیں کیا۔
ہندوستان کو مذاکرات مشروط کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ 1947 میں تقسیم کے بعد سے دونوں ممالک چار جنگیں لڑ چکے ہیں اور اب تک دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ ایسے حالات میں دونوں ہی ممالک ایک اور جنگ برداشت نہیں کرسکتے۔
لیکن اگر پھر بھی ہندوستان امن کا خواہاں نہیں، تو اسے 19 اگست کا نیویارک ٹائمز کا اداریہ بھی پڑھنا چاہیے جس کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کی صورت میں نقصان ہندوستان کا ہوگا۔
68 سال گزر جانے کے بعد آئے روز بارڈر پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپیں بھی معمول بن چکی ہیں، جن میں بیشتر اوقات ہلاکتیں عام شہریوں کی ہوتی ہیں اور دونوں ممالک جھڑپیں شروع کرنے کا الزام ایک دوسرے پر لگاتے ہیں۔
اگر ہندوستان واقعی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کبھی بھی دیگر معاملات پر پیشرفت نہیں کرسکتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی عوام کبھی بھی حکومت کو کشمیر کے مسئلے کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے آگے بڑھنے نہیں دیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستانی آئین کے آرٹیکل 257 میں لکھا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کروائے گا۔ اس کے علاوہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی جمہوری حکومت کو کشمیر کے معاملے سے پیچھے ہٹنے نہیں دے گی.
ہندوستان کی جانب سے مذاکرات کو مشروط کرنے کی وجہ پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں را کی مداخلت سے متعلق ثبوت بھی ہوسکتے ہیں، جن سے بچنے کے لیے ہندوستان ایسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے، مگر پاکستان یہ ثبوت اگلے ماہ نیویارک میں ہونے والے اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں پیش کرے گا۔
جب تک ہندوستان کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کا نہیں سوچے گا۔ تب تک ہندوستان اس خطے کا معاشی لیڈر نہیں بن سکتا، کیونکہ معاشی لیڈر بننے کے لیے ہمسائیوں سے دوستانہ تعلقات لازم و ملزوم ہیں۔ یہ ہندوستان کی بہت بڑی خوش فہمی ہوگی کہ ہندوستان پڑوسی ممالک کو اعتماد میں لیے بغیر اور حل طلب مسائل سے نظریں چرا کر خطے کی طاقت بن سکتا ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں