• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

'ہوئے مر کے ہم جو رسوا'

شائع August 20, 2015
لوگوں میں یہ تاثر ہے کہ اقبال غلط نہیں کہہ سکتے لہٰذا جو چیز بھی اقبال سے منسوب کر دی جائے وہ غلط ثابت نہیں کی جا سکتی۔
لوگوں میں یہ تاثر ہے کہ اقبال غلط نہیں کہہ سکتے لہٰذا جو چیز بھی اقبال سے منسوب کر دی جائے وہ غلط ثابت نہیں کی جا سکتی۔

حلقہء دوستاں میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہمیں شعر و شاعری سے کچھ شغف ہے اس لیے ہر روزغالب و اقبال و فیض سے منسوب بیسیوں اشعار اور غزلیات بلکہ یوں کہیے کہ مغزلیات بذریعہ ایس ایم ایس وصول ہوتے ہیں۔ ایسے محبت نامے پڑھ کر روز دل کڑھتا ہے مگر ہزاروں گزارشات کے باوجود یار لوگ اپنی شعر پردازی سے باز نہیں آتے۔ جدید مواصلاتی نظام کے نتیجے میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کی آمد اور پھیلاؤ نے اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔

نوجوان نسل نے خصوصاً شعر کی بے حرمتی کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل محبّت میں کامیابی محبوب کے سامنے برا شعر کہے بغیر نہیں مل سکتی۔ حسن و خوبی کے وہ تمام استعارے جو شاعروں نے شب و روز کی ریاضت کے بعد ایجاد کیے، اب اپنا اثر کھو بیٹھے ہیں۔ آج کل عارض گلنار، ابروئے سرشار، چشم پُر خمار، اور مژگان طائر شکار کی باتیں کرنے والے کو حلقہ نازنینان میں پاگل موالی سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بھی بات وہ کی جائے جو سننے والے کو سمجھ بھی آئے مثلاً

"کتنی تشریح کروں اس ظالم کے حسن کی

پوری ایک کتاب تو ہونٹوں پہ ختم ہوتی ہے"

زوال کی یہ داستان صرف رومانوی شاعری تک ہی محدود نہیں۔ ایک دن ہم اپنے ایک دوست محمّد اقبال سے ملنے گئے۔ وہ خاصے معقول آدمی ہیں۔ حکومت میں ملازم ہیں۔ انہیں ہماری نجات کی بہت فکر ہے۔ جب بھی ہمیں ملتے ہیں نماز کی تلقین ضرور کرتے ہیں۔ اگر خود کچھ دیر پہلے نماز پڑھ کر فارغ ہوئے ہوں تو تلقین میں مزید خلوص اور شدّت آ جاتی ہے۔ ایک دن ان کی تقریر معمول سے ذرا لمبی ہوئی تو ہم نے بھی بے اعتنائی سے ہاتھ بلند کر کے ڈرامائی انداز میں که ڈالا "خدا تو دل میں ہونا چاہیے اقبال، سجدوں میں پڑے رہنے سے جنّت نہیں مل جاتی۔"

اس پر ان کے برادر خورد جو اب تک کمپیوٹر سے سر جوڑے بیٹھے تھے جھوم اٹھے اور سر دھن کر بولے "واہ بھائی جان کیا بات کر گئے ہیں علامہ اقبال"۔ اس سے پہلے کہ ہم وضاحت کرتے کے ہم نے تو ان کے سامنے اقبال کا کوئی شعر نہیں پڑھا، انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسی موضوع پر ایک اور جگہ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے:

"بات سجدوں کی نہیں خلوص نیت کی ہوتی ہے اقبال

اکثر لوگ خالی ہاتھ لوٹ آتے ہیں نماز کے بعد"

اس کے بعد انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے کمپیوٹر میں دو چار لبلبیاں دبائیں اور مندرجہ بالا "شعر" کے ہم معانی بیسیوں اشعار سنا ڈالے، جن سب کے آخر میں 'اقبال' آتا تھا۔ گویا نماز سے بھاگنے والوں نے اپنے ضمیر کے اطمینان کے لیے اس طرز کے شعروں کے دیوان کے دیوان اکٹھے کیے ہوئے ہیں۔

اس ملک کا صرف خواب دیکھ کر اقبال وہ کام کر گئے ہیں جو بڑے بڑے لوگ جاگتے میں نہیں کر سکتے۔ اردو شاعری میں اقبال کی حیثیت اور مرتبے سے کون واقف نہیں۔ اس کی ایک وجہ عوام الناس میں یہ تاثر ہے کہ اقبال کا کہا کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ اس کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو چیز بھی اقبال سے منسوب کر دی جائے، وہ غلط ثابت نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ آج کل یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ احباب اقبال کے اشعار کا ذخیرہ جیب میں لیے پھرتے ہیں اور اول فول کہہ کرموقع محل کے مطابق یا غیر مطابق اقبال کے ایک شعر سے اپنے کہے پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں۔

مثلاً ہمارے ایک شناسا اقبال کو بیسویں صدی کا سب سے بڑا اردو رومانوی شاعر مانتے ہیں۔ ایک اور عزیز ہمہ وقت اقبال کی مے پسندی کے تاریخی شواہد پر لیکچر دیتے ہیں اور اس کے اشعار سے اپنی بلا توقف شراب نوشی کا جواز پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک دوست اشتراکیت، دوسرے مشرقیت، تیسرے اسلامی عالمگیریت، چوتھے جہاد فی سبیل الله، پانچویں مذہب کی حقانیت، چھٹے عبادات کی اہمیت، اور ساتویں حب الوطنی اور وطنیت کے حق میں دلائل اقبال کی شاعری سے بہم فراہم کرتے ہیں۔

ہمارے ایک ہم جماعت خاصے خوش گفتار ہیں۔ ہم ذاتی طور پر ان سے بہت بیزار ہیں۔ سچ پوچھیے تو ان سے حسد بھی ہے۔ ہماری واضح علمی برتری اور فکری فوقیت کے باوجود صنفِ نازک میں وہ زیادہ مقبول ہیں۔ جہاں جائیں جانِ محفل بن جاتے ہیں۔ مگر فقط ہنسنے ہنسانے سے محفل تھوڑا ہی جیتی جاتی ہے، حسبِ ضرورت سنجیدہ گفتگو بھی کرنی پڑتی ہے، چنانچہ سیاست، معاشیات، ادب، مذہب، طب، فلسفے اور سندھ کے کوئلے کے ذخائر پر مفید علم کا ایک سیلِ بے کراں ان کے سیل فون میں بند ہے۔

ایک روز کہیں بات اقبال کی شاعری کی چل نکلی۔ موصوف نے جھٹ سے فون نکالا اور ایک ہی سانس میں تین چار شعر پڑھ ڈالے اور پھر انتہائی سنجیدگی سے ان کی وضاحت کرنے لگے۔ ہم نے یہ منظر دیکھا تو رہا نہ گیا۔ فورا انہیں ٹوکا:

"میاں، یہ شعر اقبال کے نہیں ہیں"

انہوں نے پوچھا "آپ نے کیا اقبال کی تمام کتابیں پڑھی ہیں؟"

"کم و بیش "

"یہ اقبال کے آخری ایام کے اشعار ہیں جو بوجوہ چھپ نہیں سکے۔ یقیناً آپ نے یہ اشعار نہیں پڑھے ہوں گے "

"مگر یہ سب بے وزن ہیں "

"ہمیں آپ کے دماغ میں نصب فرضی پیمانے پر اعتبار نہیں۔ اور خدارا اب وہ فاعل فاعل کی گردان مت شروع کیجیے گا۔"

یہ سن کر ہجوم میں ایک شخص ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بلند آواز میں ہنسا۔ ہم نے لمحہ بھر کے لیے ہنسنے والے کی طرف دیکھا اور ٹھانی کہ یہ کرائے پر ہنسنے والے کم از کم آج تو ہمیں سچ کہنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم نے بھی انتہائی مضبوط لہجے میں کہا:

"یہ شعر اقبال کے ہو ہی نہیں سکتے ، اقبال ایسی زبان استمال کر ہی نہیں سکتا۔"

اس پر وہ اطمینان سے مسکرائے اور پوچھا،

"خودی، قومی غیرت، اور شاہین کون سے شاعر کے موضوعات ہیں؟"

ہم نے جواب دیا: "اقبال"

"تو پس ثابت ہوا کہ یہ شعر اقبال کے علاوہ کسی اور کے ہو ہی نہیں سکتے"

ان کی یہ بات سب کو بہت پسند آئی۔ سچ پوچھیے تو ہمیں بھی ان کا استدلال خاصا موزوں معلوم ہوا اور ہم سے کوشش کے باوجود بھی جواب بن نہ پایا۔

بعض اوقات تو ایسے مواقع پر سنائے جانے والے شعر واقعی اقبال کے زرخیز دماغ کی پیداوار معلوم ہوتے ہیں، مگر ان کا ماخذ نامعلوم ہوتا ہے۔ یہ ظلم صرف اقبال تک ہی محدود نہیں۔ فراز یقیناً اپنی زندگی میں خود سے منسوب شعر پڑھ پڑھ کرعلیل ہوئے اور غالب مرنے کے 150 سال بعد اپنی شاعری سمیت بے آبرو ہوئے۔ انہوں نے شاید اسی دورِ پر ہنگام کی بابت کہا تھا:

"ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا"

ذوالقرنین حیدر

ذوالقرنین حیدر انجینیئر اور سابق فلبرائٹ اسکالر ہیں۔ وہ لاہور کی ایک مقامی یونیورسٹی میں مینجمنٹ پڑھاتے ہیں۔ انہیں پڑھانے کے علاوہ پڑھنے لکھنےاور نگر نگر گھومنے کا شوق ہے۔ اپنی آراء انہیں [email protected] پر بھیجیے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (17) بند ہیں

smazify Aug 20, 2015 09:07pm
ہا ہا ہا بہت اعلی۔۔۔ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ بے وزن شعر پڑھ پڑھ تو ہم کم وزن ہو گیے- خدا شعارا کے روح کی حفاظت فرمائے۔
Imran Aug 20, 2015 09:27pm
Good man. Enjoyed.
ٓعاطف بقائی Aug 21, 2015 09:34am
زبردست
Libra Aug 21, 2015 09:51am
Very true But this is very tragic that we are spoiling masterpieces of our own Great Poets
احسن ظفر Aug 21, 2015 10:17am
بہت اعلی۔
shazia Aug 21, 2015 10:49am
بات صرف بے وزن اشعار ہی کی نہیں ہے، سوشل میڈیا کی مرہونِ منّت ایسی ایسی باتیں بے شمار محترم ہستیوں سے منسوب کی جا چکی ہیں جنہیں اگر وہ خود پڑہ لیں تو شرم سے منہ چھپاتے پھریں۔
fauzia Aug 21, 2015 12:21pm
بہت عمدہ!
فیصل عباس Aug 21, 2015 12:33pm
بہترین۔ واہ کیا بات کی ہے آپ نے آج اقبال اب اس بات کی کیا کرے تعریف فراز
Salma Aug 21, 2015 01:20pm
Really enjoyed...In my opinion its not only with Iqbal because of this social media sharing sometimes i really find Aqwal e zareen associated to Known persons and totally unbelievable and equally absurd
Salma Aug 21, 2015 01:20pm
@shazia .i have the same opinion.
Yusuf Aug 21, 2015 03:12pm
many fake poetry of Iqbal is being shared on social media these days....
AZEEM Aug 21, 2015 03:26pm
ڈیئر ذوالقرنین آپ نے بالکل درست نشاندھی کی ہے، آپ نے شعر کے بے وزن ہونے اور غلط اشعار کو نامور ہستیوں سے منسوب کرنے کی دھائی دی ، بھائی حالت تو یہ ہے کہ یار لوگ اچھے خاصے ہم وزن شعر کو بھی بے وزن کرکے پڑھتے ہیں۔ شعر فہمی تو بہت دور کی بات ہے۔ میں تو دعا ہے کہ خدا ہمیں توفیق دے ہم اردو ہی بلکہ اپنے وطن کی تمام زبانوں کے ادب کو ان کی تمامتر رعنائیوں اور حسن کے ساتھ سمجھیں اور انہیں درست ادا کریں ۔
Syed Mehdi Bukhari Aug 21, 2015 03:49pm
hahahaha buhat khoob Regards Syed Mehdi Bukhari Photographer/Writer
Shahid Riaz Aug 21, 2015 03:52pm
Iqbal was one and only in the world.
nuzhat Aug 21, 2015 04:19pm
shaairi ko kia rona poori urdu zaban ka woh haal hay keh dil khoon kay aansoo ronay ko chahta hay.. urdu ka janaza hay zara dhoom say niklay
Sharjeel Masood Khan Aug 22, 2015 02:01pm
Wah, buhat khoub
Omait Aug 23, 2015 02:09am
Don't believe everything you read on internet. Abraham Lincoln

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024