• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

اصلی طلباء کی جعلی ریسرچ

شائع August 18, 2015 اپ ڈیٹ August 19, 2015
تعلیم کے شعبے میں پسماندہ رکھنے میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ان کے طلباء بھی برابر کے شریک ہیں۔ — Creative Commons
تعلیم کے شعبے میں پسماندہ رکھنے میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ان کے طلباء بھی برابر کے شریک ہیں۔ — Creative Commons

پاکستان کے معاشرے میں اذہان کی نشوونما میں مذہبی رجحانات، سیاسی اُتار چڑھاؤ اور ثقافتی روایات کے گہرے نقوش موجود ہیں۔ سماج جب ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے تو اس کا ذہنی مزاج اور فکری پختگی ان تینوں شعبوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ نظریات سماج کی ترقی اور اس کی خوشحالی کی ضمانت ہوتے ہیں، انفرادی و اجتماعی سوچ، علم کا حصول اور جدید تعلیمی نظریات بھی اسی سماج کے ساتھ ساتھ اُبھرتے ہیں۔

اگر نظریات پسماندہ اور سطحی ہوں گے تو پھر اس سے نتائج بھی ویسے ہی برآمد ہوں گے۔ معاشرے میں شدت پسندی، لبرل ازم یا جدت پسندی سماج میں پنپنے والے نظریات کی ہی مرہون منت ہوتی ہے۔ جدید دور میں علم کے پھیلاؤ کا مرکز جامعات ہیں اور ان جامعات کی سرپرستی ریاست براہ راست کرتی ہے۔ پاکستان اپنے قیام سے اب تک کی سات دہائیوں سے علم کے بحران سے گزر رہا ہے۔

ان دہائیوں میں نو تعلیمی پالیسیاں آئیں لیکن تعلیم کے شعبے کے لیے مختص اہداف آج تک حاصل نہیں کیے جاسکے۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں پاکستان میں سب سے بڑی ایجاد "ہائیر ایجوکیشن کمیشن" کی ہے جس نے ملک میں لاوارث اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو اپنی گود میں لیا اور نئے اہداف طے کیے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی جامعات میں پاکستانی طلباء اور اساتذہ کو پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے لیے بھیجا گیا، یونیورسٹیوں میں مقابلے کی فضاء قائم کرنے کے لیے درجہ بندی کا فارمولا طے ہوا، اور یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیق میں چربہ سازی، یعنی پہلے سے شائع شدہ مواد کو چوری کر کے اپنے نام سے چھپوانے کے رجحان کو قابو میں لانے کے لیے میکانزم بنایا گیا جس سے پاکستان میں علم کی چوری کا رواج کم ہونے لگا۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے ضوابط طے کیے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی میں ہونے والی تحقیق میں پہلے سے شائع شدہ مواد کا درست حوالہ دیا جائے اور نئی ہونے والی تحقیق میں پہلے سے چھپے ہوئے مواد کا صرف 19 فیصد ہی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ایچ ای سی نے جب یہ قدغن لگائی تو اعلیٰ تعلیم میں تحقیق کے معیار میں کُچھ بہتری آئی لیکن ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سامنے شاید پاکستانی قوم کے مزاج کے رجحانات نہیں تھے۔

ٹرنیٹن نام کے اس سافٹ ویئر سے انگریزی زبان کا سہارا لے کر تحقیق کرنے والوں کی تو پکڑ ہوگئی لیکن اُردو زبان میں ہونے والی تحقیق کی جانچ پڑتال کرنے کا سافٹ ویئر آج تک نہیں ایجاد ہوسکا۔ میرے خیال میں انگریزوں کی زبان اگر اُردو ہوتی تو وہ اس زبان کی مدد سے ہونے والی علم کی چوری کو پکڑنے کا بھی فارمولا دریافت کر لیتے۔ پاکستان کی سرکاری و نیم سرکاری جامعات میں اُردو، فارسی، عربی، اسلامیات، اور سماجی علوم کے دیگر شعبوں میں جتنی بھی تحقیق ہو رہی ہے، اس میں علم کی چوری یا پھر چربہ سازی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جس میں اُردو زبان میں پہلے سے شائع شدہ مواد کو چوری کر کے اپنی تحقیق کا بغیر کسی حوالے کے حصہ بنایا گیا۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے تمام پی ایچ ڈی اور ایم فل تھیسز کے معائنے کروانے کا نظام وضع کرے۔ پاکستان کو علم کے شعبے میں پسماندہ رکھنے میں سیاستدان تو قصوروار ہیں ہی لیکن یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ان کے طلباء بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے حالیہ دنوں میں چربہ سازی کیس میں پکڑے جانے والے اساتذہ کی فہرستیں اپنی ویب سائٹ پر جاری کی ہیں۔ اس کے باوجود علم کی چوری کے جدید طریقے بھی پاکستان کی جامعات میں زیرِ تعلیم طلباء اور ان کے اساتذہ نے ہی دریافت کیے ہیں۔ پہلے سے شائع شدہ علمی مواد کو اپنی تحقیق کا حصہ بنانا ہے تو پیراگراف میں الفاظ کا ہیر پھیر کر کے کسی دوسرے کے خیال کو اپنے نام سے چھاپ دو، اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر بہت سارے محقیقین گوگل ٹرانسلیٹر کا سہارا لے کر دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے مواد کو انگریزی زبان میں بدل کر اپنے نام سے شائع کردیتے ہیں، ان جعلی محققین کی اس چالاکی کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا فراہم کردہ سافٹ ویئر بھی نہیں پکڑ سکتا۔

پاکستان میں ہر سال سینکڑوں پی ایچ ڈی اسکالرز ڈگریاں لے کر تعلیمی شعبے سے وابستہ ہو رہے ہیں۔ صرف پنجاب یونیورسٹی میں اس کی تعداد سالانہ ایک سو دس سے بڑھ گئی ہے لیکن پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود نئے خیالات، تصورات، نظریات، ایجادات کا فقدان ہے، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلباء، اسکالرز اور اساتذہ کی ذہنی نشوونما جس طرح کے تعلیمی ماحول میں ہو رہی ہے اس سے صرف چربہ ساز اسکالرز ہی پیدا ہوں گے جن کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا ہے۔

علم پر مبنی معیشت کے جو مغربی تصورات ہیں، پاکستان کی جامعات میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہو رہا بلکہ پرائیوٹ یونیورسٹیاں ڈگریاں فروخت کرنے کا ایسا کاروبار کر رہی ہیں جس سے صرف بے روزگار نوجوانوں کی کھیپ تیار ہورہی ہے۔ نالج اکانومی کا مرکز یونیورسٹیاں بنتی ہیں اور ہماری یونیورسٹیوں میں ہونے والی ریسرچ یا تو لائبریریوں کے کونے کھدروں میں ریکارڈ کا حصہ بن جاتی ہے یا پھر کاغذوں کے اس بے فائدہ ڈھیر پر دیمک حملہ آور ہو جاتی ہے۔ پڑھنے لکھنے سے دوری کا مرض ہماری قوم کی جڑوں میں پیوست ہوگیا ہے، علم سے بیزاری اور راہ فرار اختیار کرنے کا آغاز اسکول سے ہی ہوجاتا ہے جو کالج میں لڑکپن اور پھر یونیورسٹیوں میں جا کر طلباء کی ذات کا جزو بن جاتا ہے۔

یونیورسٹیوں کے اساتذہ جو تحقیق کرتے ہیں وہ صرف اپنی پروموشن کی خاطر، طلباء جو تحقیق کرتے ہیں وہ صرف اپنی ڈگری کو مکمل کرنے کے لیے۔ پاکستان علم کے شعبے میں اُس وقت تک پستی میں رہے گا جب تک علم کے میدان میں بد دیانتی کا عنصر غالب رہے گا۔ یونیورسٹیوں کے پروفیسرز کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ریسرچ کرنے والے طلباء کی سرپرستی کریں، اساتذہ کو محض یونیورسٹیوں میں اپنی نوکری کے تحفظ کے لیے ہی نہیں بلکہ اس قوم کے تحفظ کے لیے متحرک ہونا ہوگا، علم کے شعبے میں ترقی کے لیے اساتذہ اور طلباء دونوں کو ہی آرام پرستی کے بتوں کی پوجا کو ترک کرنا ہوگا۔

سائنس کے شعبے میں نئی ایجادات ہوں یا پھر سماجی علوم میں معاشروں کے سلگتے مسائل کو حل کرنے کے تصورات ہوں، یہ صرف اُس سماج میں پیدا ہوتے ہیں جہاں پر محنت، دیانتداری، لگن، جستجو، فکر ہو۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے تحقیقی مقالوں اور طلباء کے ریسرچ تھیسز لکھنے کے ضوابط کو مزید سخت کرنے کے لیے نئے سافٹ ویئرز بنانا ہوں گے اور پاکستان کو نالج اکانومی کی طر ف لے کر جانے کے لیے ان یونیورسٹیوں کے سربراہان پر سختیاں کرنا ہوں گی۔

چوری شدہ مواد کو پکڑنے کے لیے سافٹ ویئرز میں بہتری لانا اور پھر طلباء کو دیے جانے والے موضوعات پر تحقیق کے معیار کو جانچنے کا میکانزم بنانا ہوگا۔ خاص طور پر ایم اے ایم ایس سی کی سطح پر جو تحقیق ہورہی ہے یہ نہ صرف کاغذوں کا ضیاع ہے بلکہ یہ کاغذ صرف ردی کے ٹکڑے ہیں۔ ان کی بناء پر ترقی کا خواب دیکھا تو جا سکتا ہے لیکن پورا کبھی نہیں کیا جا سکتا۔

اکمل سومرو

اکمل سومرو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں akmalsoomroCNN@

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (16) بند ہیں

عائشہ بخش Aug 18, 2015 07:06pm
اکمل سومرو کی تحریر بالکل درست ہے ۔ حکومت نے تو ایچ ای سی کو تقریبا ختم ہی کردیا ہے ۔اور صوبہ سندھ اور پنجاب نے تو اپنے اپنے ایچ ای سی بھی قائم کرلیا ہیں۔ یونیورسٹی کی حالت ہمارے سامنے ہے ۔ میری اپنی پنجاب یونیورسٹی میں ایک تو جماعت اسلامی کا طلبہ ونگ کوئی کام نہیں کرنے دیتے ۔ اور یونیورسٹی کی انتظامیہ تو ماشاللہ صوبائی حکومت کے آگے نمبر بنانے میں پیش پیش ہے ۔ وہ یونیورسٹی کی جگہ پر شاپنگ مال تعمیر کررہی ،غیر ملکی بسوں کی کمپنی کا اڈہ قائم کررہی ۔ ڈینگی کے ختم کے لئے اے سی والے ہال میں سمیمنار منعقد کرورہی ہے ۔ اگر وہ نہیں کررہی تو اپنے تعلیمی امور پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ۔
muhmmad tarique Aug 18, 2015 07:15pm
bilkul sahe likha hai ap ne. dua hai k talab e ilm aur ustad suste aur kahle chor kr apne faraiz ko tan dhe se anjam den ta k pakistan pe talem o tahqeq k meyar main izafa ho.
muhmmad tarique Aug 18, 2015 07:15pm
bilkul sahe likha hai ap ne. dua hai k talab e ilm aur ustad suste aur kahle chor kr apne faraiz ko tan dhe se anjam den ta k pakistan pe talem o tahqeq k meyar main izafa ho.
نجیب احمد سنگھیڑہ Aug 18, 2015 08:55pm
چربہ سازی آخر ہوتی کیا ہے؟۔ عام لفظوں میں چربہ سازی کو نقل کہا جاتا ہے۔ جیسے کہ انگریزی فلموں کا جنرل آئیڈیا یا کہانی کو ہندی یا اردو فلم میں پیش کر دینا عام ہے۔ چربہ سازی سو فیصد بھی ہوتی ہے اور کم بھی۔ پرچے میں سوال کا جواب لکھنا ہوتا ہے۔ ایک مضمون دیا جاتا ہے قائداعظم بارے۔ طالبعلم قائداعظم کی حیاتی اور زندگی بارے لکھ دیتا ہے جو اس نے پڑھا ہوتا ہے یا جسے ذہن نشین کیا ہوتا ہے یا جسے رٹا مارا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے مطالعہ کے ذریعے ہی قائداعظم کی حیاتی بارے پتہ چلتا ہے تو پھر اسے چربہ سازی کیونکر کہا جائے گا کہ طالبعلم قائداعظم کے ساتھ زندگی نہیں گذار چکا ہوتا کہ وہ عینی شاہد کا کردار ادا کرتے ہوئے مضمون لکھے۔ فرض کر لیا کہ میں قائداعظم بارے کوئی وہ بات بھی لکھ دیتا ہوں جو میری دانست میں کہیں نہیں لکھی پڑھی گئی، تو اس بات کا کیسے پتہ چلے گا کہ میری بات دنیا کے کسی بھی شخص نے اپنے قلم سے نہیں لکھی؟۔ نظریات۔ نظریات بھی ہاتھ کا میل ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں، ترمیمیں کرواتے رہتے ہیں۔ یہ وکھری بات کہ نظریہ پاکستان جوں کا توں لگا آ رہا ہے اور شاید مناسب تحقیق کرنے میں روکتا ہے !
Imran Aug 18, 2015 09:34pm
بہت اچھا مضمون ہے۔ چربہ سازی ہر معاشرہ میں موجود ہے لیکن فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس پر کو ئی پکڑ نہیں۔ ٹرن اٹ ان اور اس جیسے دوسرے سافٹ وئیرز کو دھوکہ دینا آسان ہے۔ مثلا آپ انگلش زبان کا مضمون لیں اور پھر اسکو رشین یا چا ئینز میں ٹرانلسلیٹ کردیں اور پھر کسی تیسری زبان میں۔ اس کے بعد آپ اس مضمون کو واپس انگلش میں ٹرانسلیٹ کردیں، تھوڑی سی محنت گرامر اور الفاظ پر کرلیں ۔ لیجئے آپ کا مضمون تیار ہے۔
Saeed Aug 18, 2015 11:53pm
@Imran boht he umda mazmon likha ha soomro Sahb ny
khushnood zehra Aug 19, 2015 11:13am
thanks for point out this issue
عائشہ بخش Aug 19, 2015 12:26pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ : آپ بہت گہرے آدمی ہو۔آپ کی تحریر کے انداز سے لگتا ہے ۔ آپ کا مطالعہ اور سوچ کافی وسیع ہے ۔
فدا حسین Aug 19, 2015 02:09pm
اس کالم کا اہم نکتہ یہ ہے پاکستان اپنے قیام سے اب تک کی سات دہائیوں سے علم کے بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ بہت ہی کڑوا سچ ہے افسوس کہ اعلیٰ تعلیم کی طرف جمہوری حکومتوں کے بجائے آمریت کے دورمیں توجہ دی گئی۔ ہمارئے سیاستدانوں کی خواہش ہے کہ لوگوں کوتعلیم تک رسائی دیئے بغیر ہی جمہوری اقدار کی حفاظت ہو۔ اس سے ان کی پسند کی جمہوریت تو پروان چڑ سکتی ہے مگر حقیقت میں تعلیم سے بے بہرہ معاشرہ جمہوریت سے کوسوں دور چلا جاتا ہے۔ آخر میں کالم نگار اکمل سومرو کو اس اہم موضوع پرقلم اٹھانے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں
irfan wazir Aug 19, 2015 02:10pm
Dear Akmal soomro, Your article is very interesting. You have written about Pakistani students and teachers. Actually plagiarism is an international phenomenon. Plagiarism is committed in very developed societies like US, UK and japan. Let people do more and more research, the things will refine with time. Research at master level is very important and is not a waste of time. Students having a research experience in master performs better than others.
Umer Guddu Aug 19, 2015 02:27pm
بہت اچھا مضمون آپ نے لکھا ہے اور ایک بہت اہم مسلے آپ نے حقیقت پر مبنی رپورٹ پیش کی ہے۔ یونیورسٹیوں خصوصاً نجی یونیورسٹیوں کے اساتذہ تو خود طالب علموں کو بتاتے ہیں کہ وہ کیسے کم وقت میں آسانی کے ساتھ اپنا ریسرچ پیپر مکمل کر سکتے ہیں چند پروفیشنل کو پیسے دے کر ۔ مثلاً ای لینس یا او ڈیسک جیسی فری لانسر ویب سائٹ پر بہت سے دنیا بھر کے پروفیشنل موجود ہیں جو کہ انتہائی کم پیسوں میں ریسرج پرچہ لکھ دیتے ہیں۔ آپ آج ہی اس ویب سائٹ پر جا کر پرائس کوٹیشن حاصل کر سکتے ہیں۔
sajid ali khan Aug 19, 2015 02:54pm
اکمل سمرو صاحب نے بڑے ہی اہم ایشوز پر لکھا ہے میں خود بھی کئی ایسے واقعات کو دیکھ چکا ہوں جس میں چند روپوں کی خاطر کچھ صاحب بہ علم لوگ ایم فل اور پی ایچ ڈی کا تھسسز لکھ کر دیتے ہیں خاص کر ایسے تھیسسز جو اردو میں لکھے جاتے ہیں۔ طلبا کو پاس کروانے کے لیے متعلقہ یونیورسٹیوں میں بیھٹے ہوئے نام نہاد ماہرین سے سفارش پر اپنے شاگردوں کو اچھے نمبرز کے ساتھ پاس کرایا جاتا ہے۔ کچھ ادب سے وابستہ لوگ اپنے دوستوں کے ذریعے اپنے اپ پر ہی تھیسسز کرواتے ہیں حالانکہ ان کا ادب میں مقام وہ نہیں کہ ان پر کوئی اس طرح کا سنجیدہ کام کیا جا سکے۔ ایسے لوگوں کو نہ تو خود ریسرچ میتھڈالوجی کا پتہ ہوتا ہے اور نا ہی وہ جو تھسسز کر رہے ہوتے ہیں پھر ڈگری لے کر یہ ڈاکٹر بن جاتے ہیں اور کسی کالج یا یونیورسٹی میں جو جہالت سیکھی ہوتی ہے وہ بانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ لہذا ایچ ای سی کو سیاست چھوڑ کر سنجیدگی سے پاکستان میں تعلیمی شعبہ میں موجود نقائص کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ ملک اور قوم کی ترقی صرف تعلیمی ترقی سے ہی وابستہ ہے۔ ہمیں تمام مضا مین کے لئے ریسرچ کے عالمی اور جدید طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اج کل ایم فل اور پی ایچ ڈی صرف کاروائی بن گئی ہے۔
اکمل سومرو Aug 19, 2015 10:50pm
تمام احباب کا اپنی اپنی رائے کے اظہار کا شکریہ ۔ اس موضوع پہ قلم اٹھانے کا صرف یہ مقصد ہے کہ چربہ سازی کو روکنے کی کوشش کی جائے اور ملک میں نئے علوم کی تخلیق میں طلباء اور اساتذہ اپنا حصہ ڈالیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں نئے علوم کی تخلیق میں اداروں، حکومتوں اور محقیقین کا موثر کردار ہے۔ ہمیں پسماندگی سے نکلنے کے لیے اپنی عادات کو بدلنا ہوگا جس کے لیے قواعد و ضوابط بننے ضروری ہیں۔ علم پر مبنی معیشت کے تصور کو اپنانا ہے تو پھر اس لعنت سے نجات حاصل کرنا ہوگی تب ہی ہم صارف ملک کی صف سے نکل پائیں گے۔ شکریہ ۔
Mohammad Ayub Khan Aug 21, 2015 08:24pm
AAPSEY BİLKUL İTEFAQ NAHEYİN KARTA-- YEJ SAMJH LEYN KI DO LOG AGAR EIK HI JUMLA LIKHEYN TO WOH KABHI KABHI SARQA NAHEYIN HOTA? MASLAN MEY PUCHTA HUN? "AAP KA NAM KIYA HEY?" KOYI DOOSRA ISKO KEYSEY PUCHEYN GA "WOH BHI TO YAHI POCHEY GA YANI AAP KA NAM KIYA HEY?" KİYA HAUM İS KO AAP KA ISIM KIYA HEY? AAP KA MUBAREK NAM KA HEY? KAHEYn GEY? ISIY TARAH AOR BOHAT SI MASALEYn DI JA SAKTIY HEYN----AAP KAHEYn GEN AAP NEY GHER SAINSI MASAL DI---- NAHEYIN EISA NAHEYIN WAHAN PAR BHI BOHAT KUCH EISA HI HEY---KHAS TOR SEY MATERIALS AND METHODS MEYN----------HAAN NATAYIJ MEYn AAR SARQA HEY TO AAP BHALEY LATKAA DEYN
Muhammad Ayub khan Aug 22, 2015 01:35am
@Mohammad Ayub Khan mazeed yeh ki in masayel ki wajah sey agar similarity index 20% ya kam ho to sarqa naheyin mana jataaaaaaaaaaaaaa
زویا Aug 22, 2015 12:52pm
بجا فرمایا ہے، لیکن اس ضمن میں سرکاری ادارے بھی کسی سے پیچھے نہیں جنھوں نے پیمانہ مقرر کیا ہوا ہے کہ پی ایچ ڈی کے حامل افراد کو گریڈ اٹھارہ سے نوازہ جائے گا اور انکی حوصلہ افزائی کے لیے انھیں ماہانہ تنخواہ میں دس ہزار اضافی دئیے جائیں گے۔۔ ۔ دیکھا جائے تو یہ خاصا حوصلہ افزا اقدام ہے مگر پیسوں اور اونچے گریڈ کی طلب میں وہ حضرات بھی بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے لگے ہیں جن سے اردو یا انگریزی کی دو لائین تک نہیں لکی جاتیں۔۔ حتٰی کہ یہ کالے چور پیسے دیکر تھیسس لکھوانے جیسے جرم کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔۔ کاش حکومت اسکا بھی کوئی سد باب کرے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024