مسلم لیگ (ن) کی اپنے پاؤں پر پھر کلہاڑی
اسلام آباد: حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ-ن نے ایک مرتبہ پھر اپنے ہی پاؤ ں پر کلہاڑی مار دی۔
جمعہ کی شام جب ملک بھر میں یوم آزادی منایا جا رہا تھا، اُس وقت ایک وفاقی وزیر کے بیان نے ہمیشہ سے حساس رہنے والے سول-ملٹری تعلقات کو دوبارہ ہائی لائٹ کر دیا، جس کی وجہ سے ناصرف حکومت کو اپنی کابینہ رکن کے بیان کو مسترد کرنا پڑا بلکہ فوج بھی وضاحت دینے پر مجبور ہو گئی۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے سخت الفاظ پر مشتمل تردید حکمران ن- لیگ کیلئے کوئی اچھا شگن نہیں۔
یہ ایک پرانی کہانی ہے، مگر اس کے کردار نئے ہیں۔یہ ساری ہلچل وفاقی وزیر برائے موحولیات سینیٹر مشاہد اللہ کے بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو سے پیدا ہوئی۔
مشاہد اللہ نے انٹریو میں کہا کہ ’آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے منتخب حکومت کو ہٹانے کی سازش کی تھی‘۔
اس بیان کے ٹی وی چینلز پر رپورٹ ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد وزیر اعظم سیکریٹریٹ اور پھر آئی ایس پی آر نے ایسی کسی سازش کو یکسر مسترد کر دیا۔
مشاہد اللہ کے مطابق، حکومت ہٹانے کی سازش اس وقت تیار ہوئی جب پاکستان تحریک انصاف کا آزادی مارچ اور پاکستان عوامی تحریک کا انقلاب مارچ اگست، 2014 کو اسلام آباد داخل ہوا۔
اسلام آباد دھرنے کے ایک سال مکمل ہونے پر دیے گئے اس انٹرویو میں مشاہد نے دعوی کیا کہ آئی ایس آئی سربراہ جنرل ظہیرالسلام عباسی کی اس سازش کا مقصد بد امنی اور افرا تفری پھیلانا تھا۔
’سابق انٹلی جنسی سربراہ کی ریکارڈ ہونے والی ٹیلی فون گفتگو میں وہ بتاتے رہے کہ کس طرح بد امنی پھیلانی اور وزیر اعظم ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے‘۔
مشاہد اللہ کے مطابق، یہ ٹیلی فونک گفتگو وزارت داخلہ کی ماتحت سول انٹلی جنس ایجنسی آئی بی نے ریکارڈ کی تھی۔
سینیٹر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وزیر اعظم نے یہ ٹیلی فونک گفتگو 28 اگست، 2014 کو ایک ملاقات میں فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کو سنوائی۔
’اس پر جنرل راحیل نے جنرل ظہیر کو فوراً طلب کرتے ہوئے ریکارڈنگ سنوائی اور پوچھا کہ آیا یہ آواز ان کی ہے ؟ جنرل ظہیر کے تصدیق کرنے پر انہیں ملاقات سے چلے جانے کو کہا گیا‘۔
سینیٹر نے بتایا کہ حکومت کو دوسرے ذرائع سے ملنے والی رپورٹس سے پتہ چلا کہ اس سازش کے ’خونی اور تباہ کن نتائج‘ برآمد ہونا تھے۔
’یہ سازش نا صرف نواز شریف کی حکومت بلکہ فوجی سربراہ کے خلاف بھی تھی۔ اس سازش کا مقصد وزیر اعظم اور جنرل راحیل کے درمیان کشیدگی پیدا کرنا تھا تاکہ وزیر اعظم جنرل راحیل کے خلاف کارروائی کریں اورپھر کچھ لوگ ایکشن میں آ جائیں‘۔
خیال رہے کہ اس طرح کی افواہیں گزشتہ ایک سال سے گردش کر رہی تھیں کہ دونوں دھرنوں کے پیچھے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر کا ہاتھ ہے ،اور یہ کہ کس طرح جمہوریت پسند آرمی چیف نے اس سازش کو ناکام بنایا اور ن- لیگ کی حکومت کیسے بچی۔
اس ایک سال میں دوسرے اہم واقعات رونما ہونے کی وجہ سے یہ افواہیں کہیں گم ہو گئیں لیکن حال ہی میں جوڈیشل کمیشن کی جانب سے 2013 کے عام انتخابات کو شفاف قرار دیے جانے کے بعد انہوں نے دوبارہ سر اٹھا لیا۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ جاری ہونے کے کچھ دنوں بعد ہی فوج سے متعلق ’غلط موقع پر غلط بات کہنے‘ کیلئے مشہور وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعوی کیا کہ دھرنوں کے پیچھے جنرل ظہیر اور کچھ دوسرے لوگ تھے۔
یہ پہلی مرتبہ تھا جب ایک حکومتی عہدے دار نے کسی نامعلوم جنرل کے بجائے کسی فوجی افسر کا نام لیتے ہوئے یہ دعوی کیا۔
بعد ازاں، وزیر اعظم کے بھائی اور پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے دھرنوں کے پیچھے عناصر سے متعلق تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بعض مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ن- لیگی حکومت نے اپنی توپوں کا رخ جان بوجھ کر جنرل ظہیر سمیت دوسرے سابق جنرلوں کی طرف کر رکھا ہے۔
وزیر دفاع اور شہباز شریف کے مطالبے کو پارٹی پالیسی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اس پالیسی کو نواز شریف کی حمایت حاصل ہے۔
راولپنڈی میں بے چینی
اس میں کوئی شک نہیں اس طرح کے بیانات سے فوج میں شدید بے چینی پیدا ہوئی۔
ایک سے زائد مبصرین نشان دہی کر چکے ہیں کہ اگر اس طرح کے بیانات پر فوج کا ردعمل سامنے نہ آتا تو اس تاثر کو مزید تقویت ملتی کہ جنرل راحیل اور جنرل ظہیر ایک صفحہ پر نہیں تھے۔
اور آخر کیوں فوج ایک سابق جنرل پر بغاوت کی سازش تیار کرنے کے الزامات برداشت کر سکتی ہے؟
جب ایک سینئر فوجی افسر سے پوچھا گیا کہ پہلی مرتبہ وزیر دفاع کی الزام تراشی پر فوج کیوں خاموش رہی ا تو انہوں نے جواب دیا کہ فوج کے کسی ردعمل سے جمہوری سیٹ اپ کا بھلا نہیں ہو گا۔
انہوں نے عندیہ دیا کہ وفاقی حکومت کے کچھ لوگوں کو فوج میں پائی جانے والی بے چینی سے متعلق آگاہ کر دیا گیا ہے۔ تاہم، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سینیٹر مشاہد اللہ نے جمعہ کو اس بے چینی میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔
حکومت، آئی ایس پی آر کی تردید
سب سے پہلے حکومت ایکشن میں آئی اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے میڈیا ونگ نے مشاہد اللہ کے بیانات مسترد کرتے ہوئے ا س بات کی بھی تردید کر دی کہ وزیر اعظم نے کبھی کسی کے سامنے کوئی ٹیلی فونک ریکارڈنگ چلائی ۔
وزیر اعظم سیکریٹریٹ نے یہ بھی بتایا کہ مشاہد اللہ سے اس متنازعہ انٹرویو پر صفائی مانگی گئی ہے۔
اس کے بعد مشاہد اللہ اور وزیر اطلاعات نے مختلف ٹی وی چینلز سے گفتگو میں انٹرویو کی تردید کی۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ انہوں نے محض پہلے سے گردش کرنے والی افواہوں کا ذکر کیا تھا۔
تاہم، فوج اس عضر سے متاثر نظر نہیں آئی اور جمعہ کو رات گئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے ترجیحی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر کہا ’میڈیا میں زیر بحث ٹیپ ریکارڈنگ کا معاملہ مکمل طورپر بے بنیاد ہےاور اس کا حقیقت سے دور دور تک واسطہ نہیں۔۔۔ اس طرح کی افواہیں غیر ذمہ درانہ اور نان پروفیشنل ہیں‘۔
آئی ایس پی آر کی تردید سے یہ افواہیں تو دم توڑ دیں گی لیکن آنے والے دنوں میں سول- ملٹری تعلقات کی نوعیت کا انتہائی اہم سوال ضرور زیر بحث رہے گا اور اس کے لیے وزیر اعظم کو اپنے وزرا کا شکر گزار ہونا چاہیئے۔
تبصرے (5) بند ہیں