خفیہ ایجنسیز پر کالعدم تنظیموں کی حمایت کا الزام
اسلام آباد: سینٹ میں ملک کی خفیہ ایجنسیز پر کچھ کالعدم تنظیموں کو حمایت فراہم کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
سینٹ میں پیش کی جانے والی قرار داد ’کالعدم تنظیموں کے مختلف ناموں کے تحت یا خیراتی اداروں کے طور پر قیام‘ پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) نے بحث کرتے ہوئے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگایا ہے کہ ان کی جانب سے ترجیحات کے باعث کچھ کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی نہں کی جارہی۔
سینٹ میں قرار داد پیش کرنے والے پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں سے خیراتی اداروں کے طور پر کام کرنے کی اجازت دینا عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں ریاست کی ساکھ کو مجروح کررہا ہے۔
خیال رہے کہ فرحت اللہ بابر کی جانب سے 6 جولائی کو ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ جماعت الدعوۃ، کالعدم لشکر طیبہ کا نیا نام ہے اور تنظیم کو عدالتی حکم کے باعث کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سینیٹ چیئرمین کے حکم اور وزارت کے وعدے کے باوجود حکومت عدالتی حکم کی کاپی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
انھوں ںے سوال کیا کہ ’کیا یہ خیراتی ادارے منتخب حکومت اور پارلیمنٹ پر پریشر گروپ کے طور پر کام کررہے ہیں یا ان کو غیر ریاستی عناصر کے طور پر کچھ سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی مقاصد کے حصول کے لیے رکھا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی کے پاکستان کی مدد سے ہونے والے طالبان مذاکرات سے علیحدگی کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی جو تشریح افغانستان کے لیے کرتا ہے وہ اپنے لیے نہیں کررہا۔
اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم نے سیکیورٹی ایجنسیز کے اخلاص کو افغان صدر کے بیان کی وجہ سے سوالیہ نشان بنانے پر فرحت اللہ بابر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
پی کے ایم اے پی کے سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ افغان صدر کی جانب سے پاکستان کے ان کے ملک میں مداخلت کے خدشات میں کچھ تو ’حقیقت‘ ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ کا کہنا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی باقیات اب بھی اسٹیبلشمنٹ میں موجود ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ دہشت گرد تنظمیں سندھ میں کام کررہی ہیں۔
وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمٰن نے سینیٹ کو بتایا کہ جماعت الدعوۃ کو لاہور ہائی کورٹ کے سال 2010ء کے حکم کے مطابق کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے تاہم حکومت کی جانب سے تنظیم کے کاموں پر نظر رکھی جارہی ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں