'جن کو عشق ہو گیا ہے'
"تم ایک اچھی طالبہ ہو، تمہارے گریڈز بھی اچھے ہیں، تمہیں تو کسی بھی اسپیشلائزیشن میں داخلہ مل سکتا ہے۔ تم خود کو تباہ کر رہی ہو۔"
"اوہ! اگر تم نفسیات پڑھنا چاہتی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ تمہیں خود بھی مدد کی ضرورت ہے۔"
"اگر تم ابھی پاگل نہیں ہو تو تعلیم مکمل کرنے تک ضرور پاگل ہو جاؤ گی۔"
یہ صرف وہ چند جملے ہیں جو میرے آس پاس کے لوگوں نے مجھے تب کہے جب میں نے انہیں ماہرِ نفسیات بننے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ جب میں "بالکل کھو چکی تھی" تب یہ لوگ میری رہنمائی اس طرح کر رہے تھے۔
میں نے اسے جہالت، اور ذہنی بیماریوں کے بارے میں بدگمانی تصور کرتے ہوئے اپنے والدین اور بہن کی مدد سے ایک ایسے کریئر کا انتخاب کیا جسے بہت سے لوگ نہیں جانتے۔
مجھے میڈیکل اسکول سے تعلیم مکمل کیے ہوئے 10 سال ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں تب سے لے کر اب تک بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے، لیکن نفسیات اور نفسیاتی مریضوں کے متعلق نظریات بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
پڑھیے: میں خود کو پاگل نہیں کہلوانا چاہتی تھی
اس مسئلے پر بحث شروع کرنے کی یہ میری کوشش ہے۔ اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو یہ بحث نہایت ضروری ہے۔
لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ماہرِ نفسیات کے دفتر میں نہ پائے جائیں۔ گھر والوں کو اس کام کے لیے ان کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے، اور بسا اوقات جھوٹ بولنا پڑتا ہے کہ انہیں کس ڈاکٹر کے پاس لے جایا جا رہا ہے۔ ویسے تو یہ دیہی امریکا میں میرا تجربہ ہے، لیکن پاکستان میں بھی حالات اس سے چنداں مختلف نہیں ہیں۔
یہ حقائق ہیں: عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی آبادی ساڑھے 18 کروڑ سے زیادہ ہے، جو کہ پوری دنیا کی آبادی کا 2.65 فیصد ہے۔
لہٰذا یہ منطقی بات ہے کہ کئی پاکستانی ذہنی بیماریوں کے شکار ہوں گے۔ 62 فیصد پاکستانی دیہی علاقوں میں رہتے ہیں، اور ان کی اکثریت تعلیم اور آگہی سے دور ہے۔ مذہب ایک مشترک بات ہے، اور بھلے ہی میں مانتی ہوں کہ مذہب یا سیاست پر بات کرنا شائستگی نہیں ہے، لیکن پھر بھی عام لوگوں کے لیے وبالِ جان بننے والے کسی بھی مسئلے پر بات کرنا مذہب اور سیاست کے پاکستانی روپ پر بات کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔
ایک اور حقیقت: کچھ ذہنی بیماریاں خواتین کو مردوں سے دو گنا زیادہ متاثر کرتی ہیں، جن میں ڈپریشن اور اینگزائٹی سرفہرست ہیں۔
لہٰذا حقائق لیں، ان میں تعلیم کی کمی، مذہبی باتیں اور جہالت، توہمات، بڑی بوڑھیوں کی کہانیاں، خواتین کے خلاف نفرت پر مبنی خیالات، اور ترقی کی کمی کو شامل کریں، اور ذہنی بیماریوں کے خلاف پاکستان کے خیالات آپ کے سامنے آجائیں گے:
"سنبھالو اپنے آپ کو"
"لوگ کیا کہیں گے"
"کون شادی کرے گا تم سے، پوری زندگی ہم پر بوجھ بنی رہو گی"
"تم تو پاگل ہو، جاؤ واپس اپنے ماں باپ کے پاس"
"بال کھول کے درخت کے نیچے مغرب کے وقت بیٹھی تھی، جن کو عشق ہوگیا ہے"
مزید پڑھیے: خودکشی کا رجحان: علامات پہچانیے
یہ تمام جملے کسی پر الزام عائد کرنے والے ہیں۔ یا پھر یہ:
"اوہ، یہ تو صرف تمہارے دماغ کی پیداوار ہے"
"اس سے باہر آجاؤ"
"سب کچھ تمہارے پاس ہے، پھر بھی تم ڈپریس کیوں ہو؟"
"صرف اچھا سوچو، اور سب ٹھیک ہو جائے گا"
یہ بدگمانی دیگر طبی مسائل، جیسے کہ شوگر، بلڈ پریشر، یا دل کے امراض کے بارے میں نہیں پائی جاتی۔ اس بارے میں کسی پر الزام عائد کرنے کے بجائے صرف ہار مان لی جاتی ہے:
"اللہ کی مرضی"
"جانا تو سب کو ہے، یہ تو ایک بہانہ ہے"
اس سے بیماری کو خود اپنانے میں مریض کا قصور معاف ہوجاتا ہے۔ کسی بھی بیماری کے لیے اپنے جینز کو ہمیشہ قصوروار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض سماجی طور پر قابلِ قبول رویوں کے مالک ہوتے ہیں، بھلے ہی اس کا مطلب مغز، نہاری، پائے، اور ایسی ہی ہلاکت خیز لذیذ چیزیں کھانا ہو۔
مزید پڑھیے: ڈپریشن کی چند عام علامات
آپ اس سادہ تمثیل پر میرا مذاق اڑا سکتے ہیں:
شوگر کے مریضوں میں ایک اندرونی عضو لبلبہ (pancreas) ہوتا ہے، جو کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ یہ انسولین ہارمون پیدا کرنا چھوڑ دیتا ہے، جس سے خون میں شوگر کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ روز مرہ کے معمول اور خوراک میں تبدیلی، اور ورزش کے ذریعے مدد مل سکتی ہے، لیکن زیادہ تر معاملات میں اینڈوکرائینولوجسٹ دوائیں تجویز کرتے ہیں۔
اسی طرح سے ذہنی بیماریاں بھی ایک عضو (دماغ) سے جڑی ہوتی ہیں، اور اعصابی نظام اور ہارمونز (نیوروٹرانسمیٹرز) کے درست کام نہ کرنے پر یہ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ یہ سب کچھ کس طرح ہوتا ہے، اس بارے میں بہت سی باتیں ہیں ایسی ہیں جو ہم نہیں جانتے، لیکن ایسا بہت کچھ ہے جو ہم جانتے ہیں۔ اور اسی لیے کئی طرح کے علاج موجود ہیں، جو واقعی کام کرتے ہیں۔
بھلے ہی اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لا کر بیماری کی علامات کو کم کیا جا سکتا ہے، مگر بیماری سے "باہر نکلنا" ممکن نہیں ہوتا۔ اس میں مریض کی غلطی نہییں ہوتی، اور نہ ہی ان کا کچھ کرنا یا نہ کرنا ذمہ دار ہوتا ہے۔ جس طرح بلڈ پریشر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ برے مسلمان، عیسائی، یا ہندو ہیں، اسی طرح نفسیاتی بیماری کا ہونا بھی آپ کے ایمان کی کمزوری کی علامت نہیں ہے۔
تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ دعاؤں اور مراقبے سے ڈپریشن اور اینگزائٹی میں مدد ملتی ہے، لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے سب کچھ ختم ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیے: میں نے ڈپریشن سے کیسے نمٹا؟
بیمار فرد کو بیماری کے بارے میں طعنہ یا الزام دینا، یا شرم دلانا دو اثرات لا سکتا ہے: بہت کم لوگ طعنوں سے بچنے کے لیے مدد حاصل کرنے اور اپنی صحت بہتر بنانے پر آمادہ ہوں گے۔ لیکن اکثریت اپنی بیماری چھپانا چاہے گی۔ وہ مدد مانگتے ہوئے ہچکچائیں گے اور ان کے لیے حالات صرف خراب ہی ہوں گے۔
بدقسمتی سے اس تمام منفی رجحان کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ لوگ نفسیات کے شعبے سے دور بھاگتے ہیں۔
کئی ذہین لوگ دیگر شعبوں میں اسپیشلائزیشن کر لیتے ہیں، کیونکہ وہ شعبے 'قابلِ قدر' ہوتے ہیں۔ کچھ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ماہرِ نفسیات اور آبادی کا تناسب "5 لاکھ لوگوں کے لیے ایک" کا ہے۔ اس وجہ سے بھی کئی لوگ دیگر راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
پاکستان میں میرے اعصابی نظام کے معالج ساتھی اس بات کی تصدیق کریں گے کہ ان کے کتنے ہی مریضوں کو ماہرِ نفسیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھلے ہی یہ ایک ہی عضو (دماغ) سے متعلق ہے، لیکن ماہرِ اعصابی نظام ماہرِ نفسیات کا کام نہیں کر سکتے، بالکل اسی طرح جس طرح ماہرِ اعصابی نظام دماغی سرجن کا کام نہیں کرسکتے۔
ذہنی بیماریاں آپ پر نسل، صنف، عمر، یا قومیت کی تفریق کے بغیر حملہ کرتی ہیں۔ یہ آپ کا راستہ مکمل طور پر روک سکتی ہیں، پھر چاہے آپ بولی وڈ کی اداکارہ ہوں، یا پھر کراچی کے کسی گوٹھ میں پانچ بچوں کے والد۔ اس سے لوگ آپ پر الزامات بھی لگائیں گے اور آپ کے بارے میں بدگمانی پر مبنی آراء بھی قائم کریں گے، جس سے مدد طلبی کا رویہ متاثر ہوسکتا ہے۔
جانیے: ذہنی بیماریاں اور ہماری بے حسی
میں جانتی ہوں کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ہے، جس تک میرا یہ تبصرہ نہیں پہنچ رہا۔ ان لوگوں میں وہ خاندان شامل ہیں جنہوں نے شیزوفرینیا کے مریض رشتہ داروں کو گدو بندر (سر کاوس جی جہانگیر انسٹیٹیوٹ آف سائیکاٹری، حیدرآباد، پاکستان) میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے؛ وہ لوگ شامل ہیں جو مزاروں پر اور روحانی لوگوں کے پاس جاتے ہیں تاکہ ان کے پیاروں کو 'جنوں' کے اثرات سے نجات دلائی جائے؛ اور وہ جعلساز جو ان پریشان حال لوگوں سے پیسے نکلوانے کے چکر میں رہتے ہیں۔
لیکن اگر ہم پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے کے ذہنی بیماریوں کے بارے میں پہلے سے قائم شدہ خیالات تبدیل کر سکیں، تو بھی یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
اگر آپ میں سے ایک شخص بھی یہ پڑھتا ہے، اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ آپ کی غلطی نہیں، اور آپ کو مدد کی ضرورت ہے؛ اگر آپ میں سے ایک بھی شخص میڈیکل کے طالبعلم کی نفسیات پڑھنے کے لیے حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے حوصلہ افزائی کرتا ہے، تو یقین مانیے کہ ہم ضرور تبدیلی دیکھیں گے۔
ڈپریشن کا اسکریننگ ٹیسٹ یہاں لیجیے.
متعلقہ مضامین:
تبصرے (7) بند ہیں