کم عمری میں شہرت پانے والے بڑے کھلاڑی
کھیلوں کی دنیا میں متعدد کھلاڑی ایسے ہیں جنھوں نے بہت کم عمری میں ہی شہرت کی بلندیوں کو چھولیا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ آپ جتنے کم عمر ہو اتنے ہی زیادہ توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں اور کھیل جسمانی سرگرمیوں کے گرد ہی گھومتا ہے۔
اسپورٹس اسٹار جو سخت محنت کے لیے جانے جاتے ہیں زیادہ طویل عرصے تک فٹ بھی رہتے ہیں مگر انہوں نے کامیابی اچانک حاصل نہیں جیسا نظر آتا ہے۔ انہوں نے تربیت حاصل کی، خود کو آگے بڑھایا اور ابتداءسے ہی بلندی کو پانا ان کا مقصد حیات تھا۔
ہر طرح کی رکاوٹیں عبور کرنا
پاکستان کے اسکواش لیجنڈ جہانگیر خان نے پہلی ورلڈ امیچور چیمپئن شپ پندرہ سال کی عمر میں جیتی، دو سال بعد 1981 میں انہوں نے اس وقت اسکواش کی دنیا پر راج کرنے والے آسٹریلیا کے جیف ہنٹ کو پچھاڑ کر ورلڈ اوپن اپنے نام کی۔
جہانگیر اگرچہ ابتداءمیں بہت کمزور سمجھے جاتے تھے مگر پہلے ان کے والد اور سابق برٹش اوپن چیمپئن روشن خان اور پھر ان کے مرحوم بڑے بھائی طورسم خان نے ان کی شخصیت کو پروان چڑھایا۔ طورسم خان 1979 میں ایک ٹورنامنٹ میچ کے دوران گر کر انتقال کرگئے تھے۔ اس سے قبل 27 سالہ طورسم نے اپنے چھوٹے بھائی کو ایک جانب لے جاکر بتایا تھا کہ ہمارے والد کی خواہش ہے کہ ان کا کوئی ایک بیٹا اسکواش کا عالمی چیمپئن بنے، " میں تو نہیں بن سکتا مگر تم ایسا کرسکتے ہو"۔
جہانگیر خان اپنے بھائی کی موت پر دلبرداشتہ ہوگئے تھے مگر انہوں نے بہت سخت محنت کی۔ اس بچے کا عزم دیکھ کر اس کے کزن رحمت خان نے اپنے کرئیر کی قربانی دے کر اس کی کوچنگ کا ذمہ سنبھالا۔
سترہ سالہ جہانگیر خان نے جب جیف ہنٹ کو شکست دی تو وہ اسکواش کورٹ میں سجدے میں گر گئے اور اپنے خواب کی تعبیر کے حصول پر پروردگار کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے بعد جہانگیر خان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور وہ پانچ سال آٹھ ماہ کے عرصے تک مسلسل 555 میچز میں ناقابل شکست رہے۔ انہوں نے لگاتار دس بار برٹش اوپن چیمپئن شپ اپنے نام کی جبکہ چھ بار ورلڈ اوپن چیمپئن بھی بنے۔
پھر جو کھلاڑی انہیں شکست دینے میں کامیاب ہوا وہ بھی پاکستان کا ایک اور نوجوان تھا جس کا نام جان شیر خان تھا۔
اب اسکواش سے نکل کر ٹینس کی بات کریں تو کس نے جون میک اینور، بورس بیکر، اسٹیفی گراف اور مائیکل چینگ کے بارے میں نہیں سنا ہوگا؟
میک اینور نے اٹھارہ سال کی عمر میں 1977 میں مکسڈ ڈبلز میں اپنی پارٹنر میری کاریلو کے ساتھ فرنچ اوپن جیتا۔ اسی سال وہ ومبلڈن کے سیمی فائنل تک پہنچے مگر وہاں جمی کونرز کے ہاتھوں شکست کا سامنا ہوا۔ دو سال بعد انہوں نے اپنا پہلا گرینڈ سلیم ٹائٹل یوایس اوپن کی شکل میں جیتا۔
میک اینور کو اس وقت کافی کم عمر سمجھا جاسکتا ہے تاہم دیگر نام اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہیں۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے بورس بیکر اور اسٹیفی گراف اپنے کارناموں سے خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ 1967 میں پیدا ہونے والے بورس بیکر نے 1985 میں سترہ سال 227 دن کی عمر میں پہلے ان سیڈڈ اور پہلے جرمن کھلاڑی بننے کا اعزاز حاصل کیا جس نے ومبلڈن کا سنگلز ٹائٹل اپنے نام کیا۔
اسی طرح 1969 میں پیدا ہونے والی اسٹیفی گراف نے تیرہ سال کی عمر سے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنا شروع کردیئے تاہم انہیں پہلا بڑا ٹائٹل 1987 میں جیتنے کا موقع ملا جب انہوں نے عالمی چیمپئن مارٹینا نیورتیلوا کو فرنچ اوپن کے سنگلز ٹائٹل میں شکست دی، اس کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ اسٹیفی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں۔
کرئیر کے ابتدا میں اسٹیفی کے والد پیٹر بیٹی کو اپنی نظروں میں رکھتے تھے۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ اسٹیفی کو بہت زیادہ ایونٹس میں حصہ نہ لے اور سماجی سرگرمیوں کی بجائے اپنے کھیل پر زیادہ توجہ مرکوز کرے۔ اپنے آغاز میں شرمیلی اسٹیفی نے کبھی اس کا برا نہیں منایا اور اپنا وقت کورٹ میں پریکٹس کرتے ہوئے گزارنے کو ترجیح دی۔
ایک اور نوجوان کھلاڑی جس نے ٹینس کی دنیا میں کچھ بڑا کیا وہ چینی نژاد امریکی مائیکل چینگ نے کم عمری کے متعدد ریکارڈز اپنے نام کیے۔یہاں تک کہ انہوں نے بورس بیکر کا سب سے کم عمری میں گرینڈ سلیم کا سنگلز ٹائٹل کا ریکارڈ کو بھی اپنے نام اس وقت کیا جب انہوں نے سترہ سال 110 دن کی عمر میں 1989 میں فرنچ اوپن کو جیت لیا۔
لٹل ماسٹرز
پاکستان اور انڈیا کے ہر گلی کوچے میں کرکٹ بہت زیادہ مقبول اور کھیلی جاتی ہے تو آخر نوجوان اس سے دور کیسے رہ سکتے ہیں؟ اگرچہ اس خطے کے بیشتر کرکٹرز نے اپنا انٹرنیشل ڈیبیو کم عمری میں کیا مگر جو سب سے کم عمر ہیں وہ لٹل ماسٹر حنیف محمد کے چھوٹے بھائی مشتاق محمد ہیں، جنھوں نے اپنا ڈومیسٹک ڈیبو تیرہ سال 41 دن کی عمر میں کیا۔
انڈیا میں سچن ٹنڈولکر نے اپنا ٹیسٹ ڈیبیو سولہ سال اور 205 دن کی عمر میں 1989 میں پاکستان کے خلاف دورے سے کیا۔ کراچی میں کھیلے جانے والے اسی میچ میں پاکستان باﺅلر وقار یونس نے بھی سترہ سال 364 دن کی عمر میں اپنا ڈیبیو کیا۔ کرکٹ کے بیشتر پرستارون کو یاد ہوگا کہ نوجوان وقار نے سچن کی وکٹ لینے پر کیسا جشن منایا تھا اور پندرہ رنز بناکر پویلین کا رخ کرنے والا نوجوان بلے باز کیسے اپنے آنسو پونچھ رہا تھا۔
سولہ سال اور 217 دن کی عمر میں شاہد آفریدی کرکٹ کی دنیا میں اپنی تہلکہ خیز سنچری کی بدولت دھماکے سے اھبر کر سامنے آئے۔ 1996 میں اپنی ڈیبیو سیریز کے دوران شاہد آفریدی کو کینیا انجری کے شکار لیگ اسپنر مشتاق احمد کے متبادل کے طور پر بھیجا گیا۔ مگر اپنے دوسرے میچ میں ون ڈاﺅن پوزیشن پر بیٹنگ کرتے ہوئے انہوں نے 37 گیندوں پر سب سے تیز ترین سنچری کا ریکارڈ (جو اب ٹوٹ چکا ہے) بنادیا۔
ناقابل یقین جمناسٹر
اگرچہ آپ نے اس جمناسٹر کو ایکشن میں نہیں دیکھا ہوگا مگر رومانیہ کی نادیہ کومانیکی کے بارے میں سن ضرور رکھا ہوگا۔ 1976 کے مانٹریال اولمپکس اور 1980 کے ماسکو اولمپکس میں بالترتیب چودہ اور اٹھارہ سال کی عمر میں اس باکمال کھلاڑی نے پرفیکٹ 10 اسکور حاصل کیے۔ نادیہ پہلی جمناسٹ ہیں جنھوں نے پورے 10 اسکورز حاصل کیے۔
جمناسٹک چونکہ لچک اور پھرتیلے پن پر مبنی کھیل ہے اور ہر ایک کو اس عمر میں اس کا حصہ بننا ہوتا ہے جب جسم کی ہڈیاں اور پٹھوں کو اس کھیل کی ضروریات کے مطابق تربیت دی جاسکے۔
نادیہ نے بھی کنڈر گارڈن میں پڑھنے کے دوران جمناسٹک کا رخ کیا اور محض چھ سال کی عمر میں وہ ایک اسپیشل جمناسٹک اسکول کے لیے اس وقت منتخب ہوگئیں جب اسکول کے مالک نے اسکول کے احاطے میں ایک دوست کے ساتھ اس بچی کے کمالات دیکھے۔
جب وہ تیرہ سال کی ہوئیں تو انہوں نے ناروے میں ہونے والی یورپین چیمپئن شپ ان تمام ایونٹس میں گولڈ میڈلز جیت لیے جس میں انہوں نے شرکت کی۔ انہوں نے دنیا بھر میں متعدد ایونٹس میں شرکت کی اور ججز کو حیران کرنے کے ساتھ مجبور کردیا کہ وہ اس کھلاڑی کو پورے پورے پوائنٹس دیں جیسا مانٹریال اولمپکس اور اس کے بعد بھی ہوا۔
نادیہ نے جو ریکارڈ 1976 کے اولمپکس گیمز میں بنایا وہ اب کبھی نہیں ٹوٹ سکے گا کیونکہ اس کے بعد اولمپکس کمیٹی نے جمناسٹک مقابلوں میں شرکت کے لیے عمر کی حد سولہ سال کردی تھی۔
تمام خول توڑ کر نکلنے والا
اپنے والد ایرل ووڈ کے شکر گزار ٹائیگر ووڈجنھوں نے بیٹے کے دل میں کھل کی محبت کا بیج بویا، اس مشہور معروف گولفر نے دو سال کی عمر میں کھیلنا شروع کردیا تھا۔ 1975 میں پیدا ہونے والے ٹائیگر ووڈ نے سات سال کی عمر سے بھی پہلے کیلیفورنیا میں ڈرائیو، پچ اور پٹ نامی مقابلے کے انڈر 10 ایونٹ کو جیتا۔ ایک سال بعد انہوں نے جونئیر ورلڈ گالف چیمپئن شپ کے 9-10 کے بچوں کا ایونٹ اپنے نام کیا اور بعد یہ چیمپئن شپ چھ بار جیتی۔
وہ اس وقت صرف پندرہ سال کے تھے جب انہوں نے سب سے کم عمر یو ایس جونئیر امیچور چیمپئن بننے کا اعزاز کیا۔ اس کے بعد وہ 1994 میں سب سے کم عمر یو ایس امیچور چیمپئن بننے کا اعزاز بھی لے اڑے۔
دو سال بعد یعنی 1996 میں انہوں نے پروفیشنل گالف کا رخ کیا اور اپریل 1997 میں پہلا ماسٹرز ٹورنامنٹ جیتا اور دو ماہ بعد جون میں انہوں نے سب سے زیادہ تیزی سے عالمی گالف رینکنگ میں نمبرون بننے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔
تبصرے (1) بند ہیں