کیا آپ کو معلوم ہے آپ کیا کھا رہے ہیں؟
صفائی جن کا نصف ایمان ہوا کرتی تھی، جو مال کے نقص بیچنے سے پہلے بتایا کرتے تھے، جو ناپ تول میں کمی نہ کرتے تھے، اپنے وعدے کے ایفاء کے لیے تین تین دن ایک ہی جگہ پر انتظار کیا کرتے تھے، ایسے تھے میرے آباء، اور اپنی تصویر آئینے میں دیکھتا ہوں تو اپنا چہرہ دیکھ ہی نہیں پاتا۔ میرے گھر کے آئینہ خانے میں کچھ اور نظر آتا ہے اور اپنی دکان کے فریم میں کسی اور طرح کا۔ میں جس گھر میں جاتا ہوں، میرا چہرہ بدل جاتا ہے۔
پچھلے چند ہفتوں سے اپنے چہرے کی ایک غلاظت سے نظریں ہٹانے میں مصروف ہوں، مگر کیا کروں اس بدبو نے اب ناک میں دم کر دیا ہے۔ وہ جو لاہور کے کھانا بیچنے والے کھانے کے نام پر بیچ رہے تھے اور میں کتنے شوق سے اپنی جیبیں خالی کر کے خریدنے جاتا تھا۔ ان سب غلاظت فروشوں کی تصویروں سے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی فیس بک دیوار بھری پڑی ہے۔ وہ کون سا بڑا نام ہے جو ان ریستورانوں میں شامل نہیں۔ آواری، پرل کانٹینینٹل، کے ایف سی، گورمے، این ایف سی، فیٹ برگر، ہارڈیز، ایک لمبی فہرست ہے جو زیادہ بہتر ہے کہ آپ ان کی ویب سے ہی پڑھ لیں۔
کسی کے اچار پر پھپھوندی جم چکی ہے اور وہ شہر کے بہترین اچار بنانے والے ہیں، تو کسی کے کچن اور ٹوائلٹ میں کوئی فرق ہی نہیں۔ کوئی مردہ جانوروں کی ہڈیوں سے گھی نکال کر فروخت کیے جا رہا ہے، تو کوئی دھڑلے سے کسی مشہور برانڈ کا کولا اپنی بنائی بوتلوں میں بھرے جا رہا ہے۔ کسی نے باسی گوشت سے فریج بھر رکھے ہیں، تو کہیں کوڑے دان سے خوراک ذخیرہ کرنے والے برتن کا کام لیا جا رہا ہے۔ کسی ہوٹل کے کام کرنے والوں کے باتھ روم میں صابن تک دستیاب نہیں، اور کسی کے کام کرنے والوں کو ہائیجین کے متعلق کوئی آشنائی ہی نہیں۔
منافع کمانے کی دوڑ میں میرے پاکستانی بھائی جس دوڑ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، اس میں حلال و حرام کی تمیز تو ناممکن ہے ہی، مگر حفظانِ صحت کے اصولوں کو نظر انداز کر کے جس طرح کا کھانا لوگوں کو بیچا جا رہا ہے اس سے الامان۔ کینسر سے مرنے والوں کی فہرست میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، آئے روز کسی کا بھائی اور کسی کی بہن اس خاموش قاتل کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے، اور وجہ نامعلوم۔ بس جی کینسر ہو گیا۔ ارے بھائی کینسر کیونکر ہو گیا؟ جب جس دودھ کو دوائی سمجھ کر پیا گیا ہو اور اسی دوائی میں زہر ملا ہوا ہو تو مریض کی صحت یاب ہونے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ جس خوراک نے آپ کا جزو بدن بننا ہو اگر وہی کسی شریان میں جا کر لہو کا بہاؤ روکنے کا سبب بننے لگے تو ایسی خوش خوراک چہ معنی؟
فوڈ ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے ہمارے سائنسدان دوستوں کا کہنا ہے کہ دودھ کے حصول کے لیے آکسیٹوسن کا استعمال مضر صحت ہے، اور اب تو سنا ہے کہ یوریا سے بھی دودھ بنایا جاتا ہے۔ مزید برآں جینیٹکلی موڈیفائیڈ فوڈ اور کیڑے مار ادویات کے اثرات والی خوراک جب ناقص صفائی ستھرائی والی جگہوں پر پک کر تیار کی جاتی ہیں تو ان کے مضر اثرات دو آتشہ ہو جاتے ہیں۔
ان حالات میں صاف ستھری خوراک تک عام لوگوں کی رسائی ممکن بنانا کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ بہت اچھا ہے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی خاتونِ آہن عائشہ ممتاز شہر کے دکانداروں کو آپ کو صاف ستھرا کھانا فروخت کرنے کا پابند بنانے کی مہم پر نکلی ہیں۔ ان کے محکمے کی کارکردگی دیکھ کر روشن پاکستان کی منزل دور دکھائی نہیں دیتی۔ بہت ممکن تھا کہ ایسی آواز دبا دی جاتی لیکن پنجاب حکومت نے ان کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے ان کی پذیرائی ہی کی ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کا طریقہ کار بہت سادہ ہے۔ وہ متعلقہ جگہ سے تصاویر لے کر اپنے فیس بک کے صفحے پر ساتھ ساتھ لگاتے جاتے ہیں، تاکہ اس سے پیشتر کہ کوئی کسی سے کہے کہلوائے، بات سوشل میڈیا پر نکل چکی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مثبت رنگ کی یہ تصویر بہت سے اداروں کے لیے مشعل راہ ہے۔ پاکستان کے اور بہت سے ادارے پنجاب فوڈ اتھارٹی سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک وزیر کا سفارشی رقعہ بھی سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا تھا۔ ایسے بہت سے اقدام طالع آزماؤں کو سوچنے پر مجبور کرسکتے ہیں کہ اب آپ کی تحریر کی باز گشت ان کو سنائی دے گی اور وہ عوام کی عدالت میں جواب دہ ہوں گے۔
|
جہاں حکمرانوں پر فرض ہے کہ وہ عوام کے لیے زندگی کی بنیادی ترین ضرورت خوراک کی بہترین ترسیل کے لیے کوشش کریں وہیں ہم عوام پر بھی فرض ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں سادگی کو لائیں۔ بازار سے گھٹیا برگر کیوں اور گھر کا کباب پراٹھا کیوں نہیں؟ اگر ہر دوپہر دفتر کی میز پر گذرتی ہے تو تھوڑا سا کھانے کا اہتمام اپنے گھر سے کرنے میں کتنی محنت درکار ہے؟ اور ہاں اگر گھر کا کھانا ہی کھاتے ہیں تو اپنے حصے کا اگاتے کیوں نہیں؟ ایک گائے یا بھینس (اگر جگہ ہے تو) جس کو زیادہ دودھ کے لیے آکسیٹوسن کے انجکشن نہ لگائے جاتے ہوں، ورنہ دو چار مرغیاں اور گھر کی سبزی؟
جس گھر کے کونے پر آرائشی پودے سجا رکھے ہیں وہاں گوبھی اور بینگن کیوں نہیں؟ اپنے لیے گوشت پیدا کرنا شاید تھوڑا مشکل ہے، مگر اپنی سبزی اگانا بہت آسان ہے۔ اگر بالکل بھی جگہ نہیں تو کم از کم اپنا سلاد تو اگایا ہی جاسکتا ہے، جس کے لیے دو چار خالی گملے اور تھوڑی سی قوت ارادی درکار ہے اور بس۔
بازار سے اپنی پسند کا ملک شیک پینے سے ذرا پہلے سوچ لیجیے کیا یہ ٹھنڈا اور میٹھا زہر تو نہیں؟ آپ کی آنکھیں کھولنے کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ویب پر سینکڑوں تصویریں پڑی ہیں۔ جن لوگوں نے اس کاروبار سے لاکھوں کروڑوں کا منافع کمایا ہے، انہیں اپنی روش تبدیل کرنے میں کچھ وقت لگے گا، مگر آپ کو اپنی صحت کے لیے اپنی عادت تبدیل کرنے کے لیے کس تحریک کی ضرورت ہے؟
تبصرے (7) بند ہیں