• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بجرنگی بھائی جان کی گیتا کا مندر

شائع August 5, 2015 اپ ڈیٹ August 6, 2015
— فوٹو اختر بلوچ
— فوٹو اختر بلوچ
— مصنف اختر بلوچ، فیصل ایدھی، اور گیتا۔ — فوٹو محسن سومرو
— مصنف اختر بلوچ، فیصل ایدھی، اور گیتا۔ — فوٹو محسن سومرو

کسی بھی تعطیل کا دن کراچی کے علاقے میٹھادر میں خاصا سکون کا ہوتا ہے۔ اس دن میٹھادر کے علاقے میں آپ خاصے آرام کے ساتھ جا سکتے ہیں۔ عام کاروباری دنوں میں کوئی باہر والا تو کیا جائے گا، علاقہ مکین بھی اگر 11 بجے سے پہلے کہیں جانے کو گھروں سے روانہ ہوجائیں تو گھر لوٹنے کے لیے رات 8 بجے یا اس کے بعد کا وقت مناسب سمجھتے ہیں۔

آج ہمیں میٹھادر میں ایک ایسے مندر کی تلاش تھی جو ایک مسلمان کے گھر میں ہے۔ نہ صرف مندر موجود ہے، بلکہ اس کی رکشا (حفاظت) بھی کی جاتی ہے۔ مندر میں پوجا کرنے والی صرف ایک لڑکی ہے۔ گھر کے باقی سب مکین مسلمان ہیں۔ مندر ایک کمرے میں ہے، لیکن گھر والے ہوں یا باہر والے، کوئی یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ جوتوں سمیت اندر داخل ہوجائے۔ اگر کوئی نادانستگی میں بھی ایسا کرے تو گھر کی مالکن اسے فوراً یہ کہتی ہے کہ ”بھائی جوتے اتارو، ہماری بیٹی بہت برا مانتی ہے۔“

یہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ سماجی خدمات میں اپنا آپ منوانے والے عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی ہیں۔ انہیں اگر سماجی خدمات کے حوالے سے خاتونِ اول کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ بلقیس ایدھی خاتونِ اول کیسے بنیں یہ کہانی بھی آپ کو بتائیں گے۔ لیکن فی الحال ہم بات کر رہے تھے ان کے گھر میں مندر کی۔ ان کے شوہر مولانا ہیں اور انہوں نے ایدھی صاحب کے ساتھ 70 کی دہائی میں بذریعہ سڑک حج کیا تھا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ انہیں اپنے گھر میں مندر بنانا پڑا؟

بلقیس ایدھی مسکراتے ہوئے بولیں کہ ”میں نے یہ مندر گیتا کے لیے بنوایا ہے۔ گیتا جو ہے نا، وہ گیارہ سال پہلے ہمارے پاس آئی تھی، لاہور کے بارڈر سے۔ ابھی اس کی جو عمر تھی نا، وہ گیارہ سال کی تھی۔ یہ جو ہے نا ابھی گونگی ہے اور بہری بھی ہے۔ یہ جبھی آئی تھی نا تو اس کی حرکتوں سے پتہ چلا کہ یہ مسلمان نہیں ہے۔ وہ اشارے سے ماتھے پر تِلک لگاتی تھی۔ پھر آرتھی اتارنے کا اشارہ بھی کرتی تھی۔ میں سمجھ گئی یہ مسلمان نہیں ہندو ہے۔ بس میں نے ایدھی فاؤنڈیشن کی تیسری منزل پر اس کو مندر بنا کے دیا۔"

"ابھی یہ روز روز مندر میں جاتی ہے اور پوجا کرتی ہے۔ میرے ساتھ اشاروں میں بات بھی کرتی ہے۔ میں نے بہت سوچا کہ یہاں پر ہی اس کی شادی بھی ہوجائے۔ میں اس کے سامنے اشاروں میں ہاتھوں سے ماتھے پر سیندور لگانے کا اشارہ کرتی ہوں لیکن وہ اپنے بائیں ہاتھ سے ایک اشارہ کرتی ہے اور اپنے ہاتھ کو نیچے سے اوپر لے جاتی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ہوائی جہاز۔ پھر وہ اشاروں میں اپنے ماتھے پر سیندور سجاتی ہے۔ پھر شادی کے پھیرے لگانے کا بھی اشارہ کرتی ہے۔"

— فوٹو محسن سومرو
— فوٹو محسن سومرو
مصنف اختر بلوچ عبدالستار ایدھی کے ساتھ. — فوٹو محسن سومرو
مصنف اختر بلوچ عبدالستار ایدھی کے ساتھ. — فوٹو محسن سومرو

بلقیس ایدھی نے کہا کہ "انڈیا والوں سے بھی ان کی بات ہوئی ہے لیکن سفارت خانے والے کہتے ہیں کہ اگر یہ لڑکی دوبارہ انڈیا گئی تو پکڑی جائے گی۔ میں ادھر رشتہ تو ڈھونڈ رہی ہوں لیکن یہ مانتی ہی نہیں۔ بس اشارہ کرتی ہے جہاز کا، پھر اپنے اندازے کے مطابق انڈیا کا رُخ کرتی ہے، سیندور بھی لگاتی ہے، اور شادی کے پھیروں کا اشارہ بھی کرتی ہے۔"

ابھی بلقیس ایدھی سے ہماری بات چیت ہو ہی رہی تھی کہ ہمارے دوست فیصل ایدھی، عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کے سب سے چھوٹے بیٹے نے ہم سے کہا کہ ”ارے اختر بھائی 2 بجے انڈیا کے پکڑے ہوئے ماہی گیروں کو واپس جانا ہے۔“ انہوں نے ایک نوجوان کو کہا بھائی وہ 5 ہزار فی کس کے لفافے جلدی بنوائے۔ ہم نے فیصل سے کہا کہ یار ابھی تو 12:30 بجے ہیں، دو بجنے میں ابھی دیر ہے۔ فیصل بولے بھائی 163 لوگ ہیں اور سب کو پیسے دینے ہیں۔ اگر ایک منٹ ایک بندے پر لگاؤ تو بھی تقریباً تین گھنٹے لگتے ہیں۔ ہم نے کہا چلو پھر آئیں گے۔

فیصل نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بتایا کہ یہ جو فلم بجرنگی بھائی جان بنی ہے، وہ اسی بچی گیتا کی کہانی ہر بنی ہے۔ ہم نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ ایک طویل عرصے سے انڈین حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں سے رابطے میں ہیں، لیکن اب تک کچھ نہیں ہوا۔ میرا خیال ہے کہ یہ اسٹوری آہستہ آہستہ ان تک پہنچ گئی ہوگی۔ پھر اس پر فلم بن گئی۔ ہمارے یہاں تو یہ اصل شکل میں گیتا کی صورت میں موجود ہے۔ اب گیتا کی اسٹوری کو کیش کروانے بھی کچھ سماجی کارکن میدان میں آگئے ہیں لیکن ان کا مقصد صرف نام کمانا ہے۔

بلقیس ایدھی نے ہماری معلومات میں یہ بھی اضافہ کیا کہ گیتا نماز بھی پڑھتی ہے۔ ہمارا اگلا سوال یہ تھا کہ نماز اس نے کیسے سیکھی؟ تو بلقیس ایدھی کا کہنا تھا کہ چونکہ ایدھی فاؤنڈیشن میں رہائش پذیر بچیوں اور خواتین کارکن کی اکثریت مسلمان ہے، اور فاؤنڈیشن میں نماز کے اوقات میں نماز بھی ادا کرتی ہیں، تو ان کو دیکھتے دیکھتے گیتا نے بھی نماز شروع کر دی۔ لیکن نماز کے بعد وہ اپنے چھوٹے مندر میں پوجا بھی ضرور کرتی ہے۔ فاؤنڈیشن میں رہنے والی تمام بچیاں اس کے مندر کا احترام کرتی ہیں۔

گیتا پوجا کرتے ہوئے. — فوٹو اختر بلوچ
گیتا پوجا کرتے ہوئے. — فوٹو اختر بلوچ

پھر بلقیس ایدھی نے افسردہ لہجے میں کہا کہ "اب یہ جوان ہوگئی ہے۔ میں تو چاہتی ہوں ادھر ہی اس کی شادی ہوجائے، لیکن کیا کروں اس کی زبان تو صرف میں ہی سمجھتی ہوں۔ اس کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہاں انڈیا میں اس کا باپ بہت امیر ہے، اس لیے وہ اشارے سے مجھے کہتی ہے کہ وہ جہاز پر انڈیا جائے گی۔ ابھی انڈیا والوں سے بات ہورہی ہے۔ میری بچی یہاں رہے گی یا وہاں، اس کا فیصلہ کیسے ہوگا۔ میں بس یہی سوچتی رہتی ہوں۔"

ہم شکستہ دل کے ساتھ ایدھی فاؤنڈیشن کی تیسری منزل سے اتر آئے۔ مجھے گیتا کی کہانی بہت مزیدار لگی، لیکن پھر میں سوچنے لگا کہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں تو بلقیس ایدھی نے اپنے گھر میں ایک گونگی اور بہری بچی کے لیے مندر بنایا، پھر اس کے لیے اشاروں کی زبان سیکھی، ہو سکتا ہے کہ انڈیا میں بھی کچھ ایسا ہو؟ سرحد کے اس پار اور اس پار بے شمار گیتائیں اور منے ہیں جو کہ کسی بلقیس ایدھی، فیصل ایدھی اور ایسی ہی کسی اور شخصیت کا انتظار کرتی ہوں، جو ان کی اسٹوری پر فلم بنانے کے لیے نہیں، بلکہ بچھڑے ہوؤں کہ ملانے کا کام کرتے ہوں۔

ہم یہ بلاگ لکھنے سے کچھ دن پہلے بھی فیصل ایدھی سے ملنے کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن گئے تھے۔ وہیں گیتا سے ہماری ایک سرسری ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اس وقت ہم نے سوچا کہ گیتا کی کہانی لکھنے اور سمجھنے کے لیے ایک طویل وقت درکار ہے۔

خیر چند روز بعد ہم جب گیتا کا انٹرویو کرنے پہنچے تو اس نے مسکراتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کی پہلی انگلی سے ایک دائرہ سا بنایا اور پیشانی پر ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑی ایک بلوچ لڑکی کی طرف دیکھا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ میرے متعلق کچھ کہہ رہی ہے۔ میں نے اس لڑکی سے پوچھا کہ گیتا کیا کہہ رہی ہے؟ تو اس نے ہنستے ہوئے بتایا کہ گیتا کہہ رہی ہے ”یہ پھر آگیا“۔

اس کے بعد گیتا نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پنڈلیاں دبا کر بھی ایک مخصوص اشارہ کیا۔ میں نے پھر لڑکی سے پوچھا اب کیا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ گیتا کہہ رہی ہے کہ وہ سیڑھیاں چڑھتے اترتے تھک گئی ہے، اور اس کے پیروں میں درد ہو رہا ہے۔ لڑکی کے مطابق جب سے گیتا کی کہانی منظرِ عام پر آئی ہے تو ٹی وی چینلز اور صحافیوں کی آمدورفت میں بہت اضافہ ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے اسے بار بار تیسری منزل سے گراؤنڈ فلور پر آنا پڑتا ہے۔

اس موقع پر عبدالستار ایدھی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ خاصے ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ ہم نے ان کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے مسکرا کر کہا ”سو سال کا ہوگیا ہوں۔ بس سب ٹھیک ہے۔“ انہوں نے دھیمے سے اپنے بیٹے فیصل ایدھی کو بھی کچھ کہا۔ جب ہم نے فیصل سے دریافت کیا کہ ایدھی صاحب کیا کہہ رہے ہیں، تو فیصل نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ وہ پوچھ رہے ہیں انور مقصود کیوں آیا ہے؟ میں نے فیصل سے کہا تو تم نے کیا کہا؟ فیصل بولا میں نے کہا وہ تو گورا چٹا ہے اور یہ۔۔۔۔۔۔۔!

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (15) بند ہیں

Sharminda Aug 05, 2015 05:22pm
Allah Edhi sahab aur un ki raah par chalnay waalon ki madad farmain aur apnay hifz-o-aman main rakhain. Haalia doar main, is say barh kar insan dosti ki misal nahin mil sakti.
danish khanzada Aug 05, 2015 07:27pm
Good Work akhtar bhai
Malik USA Aug 05, 2015 07:29pm
I am proud of Edhi saheb and his family. Just imagine if this family is not here in Pakistan. What could happen with these type of girls in Pakistan. At the same time India is worst in this regard. Some noble people are working there for the good cause but not on the national basis. This family has spread this welfare work in the whole country without govt's support. And it is good govt is not supporting otherwise it would have been ruined. I salute you too Akhtar Saheb to highlight these type of topic. It will create a good harmony between the two countries as well as as in Pakistan. Because news means war, terror, murder, kidnapping, ransom, hate with each other and promoting the hate among brothers to maintain their political dynasty, actually this is called news in India and Pakistan.
abdullah Aug 05, 2015 08:14pm
Balcoh Sahib.. ap ney ya article likh buht zabrdast kiya hay.. sahee bat ya hay k mujhy maloom nhn tha k Eadhey sahib aur un ki family itnee had tak kr saktey hain k kisi bachee ki nanhee se khuwahish pr un k liey mandr ka bhee aik kona arrange kr saktey hain.. aur wo bhe hmarey Mulk mn.. ya Moula Eadhee aur un ki family ko hamesha Abad rakh.. Thanks Akhtar Baloch Sahib.
MUKHTAR AHMED BHAI JEE Aug 05, 2015 08:51pm
AKHTAR BALOUCH SB KE YUN TO AIK SE BARH KER AIK ARTICAL HEN MGER MEZKORAARTICAL NE YE SABIT KEA HE K BALOCH SB AIK KHUNA MASHEK SHAFI HEN JO HER WAQET KISE JUSTGOOR FRAQ ME RAHTE HEN GITA K HAWALE SE BHI UN KI THARIR LAIEQ THASEEN HE KASH HMARE MULK ME BHI FILM BAJRANGI JESA KOI FILMSAZHOTA OR BHARET WASION KO BTATA K HUM BHI MOHEBT KE MAMLE ME UN SE KUM NAHI
Raj Kumar Aug 05, 2015 10:49pm
مالا مجھ سے لڑ پڑی، کاہے پهیراوے موہے __ جو توں اپنا من فیر دے، تو رام ملا دوں توهے _ یہ سائیٹ گوگل پر شیئر نہیں کیوں ہوتی جناب۔
hammad Aug 05, 2015 11:02pm
good work sir i just love your blogs keep it up..
mohhamad Aug 05, 2015 11:22pm
sir gud work sir inshallah ap bohot aagay tak jaogay sir gud work..unlimited talent you have ...
Muhammad Ayub Khan Aug 05, 2015 11:35pm
hayret hey 15 saal pehley kaa immigration kaa record kaheyiN bhee Naheyin jis ko check kia jaa sakey---na koyi FIR na kuch aor? naa idhar udhar ? jahAANsey kuch clue nikal sakey--------------------------------------?
huzaifa Aug 05, 2015 11:45pm
Nice .May Allah Bless MR & MRS Edhi
Ashook kumar Aug 06, 2015 07:02am
ye insaniat ki zabardast misal hi. kia hum log bhi kuch asa kar sakte hain.. Bhaghwan Edhi sab r un ki family ko hamesha abad rakhe.
MOHAMMAD Aug 06, 2015 10:31am
HAHAHAHA.. WHAT A SWEETLY AWKWARD SITUATION.. YEH ANWAR MAQSOOD YEHAN KION AYA HAI? ... MAIN KEHA WOH TO GORA CHITTA HAI... !!
Mohammad Kamran Aug 06, 2015 04:09pm
Even after this wonderful behaviour, The indian Media & extremist Hindus will not reduce their poizon against Pakistan.. The Extermist Hindus & Indian Media will show only the worst situation about the people of Pakistan.
husain naqi Aug 07, 2015 04:23pm
eidhi sahib is our conscience. Karachi is the capital of the same Sindh where Hindu girls are forcibly married and change their religion so that her nikah should be solemnized. GEETA represents the anti-thesis. long live edhis ..abdus sattar, bilquis and faisal edhi. husainnaqi
khobaib hayat Aug 09, 2015 05:15am
bohot achhay akhter,edhi family ki tuo aik dunya maddah hy.geeta ki aik misal nhi.pta nhi kitni geetaon ko bilqees edhi sahebah nay apnay daman myn samoya hua hay

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024