مووی ریویو: رونگ نمبر
کچھ لوگوں کو لولی وڈ فلم رونگ نمبر کی کامیابی کا یقین تھا، جبکہ دیگر کو لگتا تھا کہ یہ فلم پیسے کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کچھ غیرمعیاری لطیفوں اور بونگے مزاح کے علاوہ رونگ نمبر کئی شعبوں میں اچھی فلم ہے (جیسا انڈین فلمساز گلزار نے لولی وڈ فلم کی ٹیم کے ساتھ ویڈیو پیغام میں کہا)۔
فلم کی خاصیت
رونگ نمبر اور نامعلوم افراد سے ہٹ کر حالیہ برسوں میں بہت کم فلمیں ہی کامیڈی رہی ہیں مگر ان دونوں فلموں نے اس شعبے میں قدم رکھنے کی ہمت کی۔ ٹھیک ہے کہ کچھ جگہ ایسا لگتا ہے کہ مزاح معیار سے عاری ہے اور کچھ جگہوں پر مزاح دوسروں کو بناتا ہے مگر کہانی ک یروانی کہیں بھی اچانک سست نہیں ہوتی اور یہ چیز اس فلم کو قابل قبول بناتی ہے۔
جاوید شیخ قصائی کے روپ میں ہر منظر میں زبردست اور چھائے نظر آئے۔ دانش تیمور ڈبل رول میں اچھے رہے اور وہ دو ہیروئینوں سے رومان لڑانے سمیت متعدد ولنوں کو باآسانی دھوکا دینے میں بھی کامیاب رہے۔
جب بات ہوتی ہے خوش شکل اداکاروں کی جو اداکاری اور رقص بھی کرسکے تو دانش تیمور نے کردار کے تقاضوں کو نبھایا ہے۔ فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کے لیے وہ اپنی سابقہ فلم جلیبی کے اثر سے باہر نکل کر اس انداز میں بات کرتے ہیں جو کہ مرحوم سلطان راہی کی یاد دلاتا ہے، کیا آپ نے یہ فرق نوٹ کیا؟
فلم کی خامیاں
فلم کا پہلا ہاف کمزور تھا اور اگر کوئی یہ کہے کہ رائٹر ہاف ٹائم تک یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہا کہ کس پلاٹ کو آگے بڑھانا چاہیے، تو ہمیں حیرت نہیں ہوگی. فلم میں ایسے مناظر کی بھرمار ہے جنہیں ایڈیٹ ہونا چاہیے تھا. کچھ کو تو فلمانے سے قبل ہی کہانی سے نکال باہر کرنا چاہیے تھا جبکہ کچھ کچھ مذاق اگر فلم میں شامل نہ ہوتے تو اور بہتر ہوتا۔
فلم کی ہیروئینیں سوہا علی ابڑو اور جنیتا اسما نے وہی روایتی لڑکیوں کا کردار ادا کیا ہے جو اپنے خوابوں کے شہزادے کی منتظر ہوتی ہیں تاہم انہیں متاثرکن بنایا جاسکتا تھا اگر بولنے کے لیے بامقصد ڈائیلاگ دیے جاتے اور شفقت چیمہ اپنے روایتی بدمعاشی کے انداز کے ساتھ تین ساتھیوں (دانش نواز، ندیم جعفری، اور عاطف شاہ) کے ساتھ ہیں جو کہ کچھ زیادہ قابل قدر نہیں، جن کا غیر معیاری مزاح اور خود کو مکمل احمق بنانا بھی غیر متاثرکن ہے۔
یہی ان کے کردار ہیں مگر بدقسمتی سے کسی بھی مزاحیہ منظر میں یہ کردار چہروں پر مسکراہٹ بکھیر نہیں سکیں۔
پرذہانت حصہ
لاہور سے تعلق رکھنے والے اداکاروں کو فلم میں لاہوری انداز سے استعمال کرنا (ماسوائے مرکزی ہیروئین کے) ایک ذہین فیصلہ تھا. سینیئر اداکاروں عاصم بخاری اور محمد قوی خان کو دوبارہ بڑی اسکرین پر دیکھنا خوشگوار تھا تاہم انہیں اسکرین پر مزید وقت دیا جانا چاہیے تھا۔
فلم کے آغاز میں جس تعاقب کا آغاز ہوا اسے بہت اچھے انداز سے پیش کیا گیا اور بہت کم افراد کو معلوم ہے کہ دانش تیمور فلم کے ایکشن مناظر میں اسٹنٹ کرتے ہوئے زخمی بھی ہوئے۔ وہ سین جہاں انہوں نے معروف بولی وڈ اداکارون کی نقل کی ہے وہ بھی قابل ذکر ہے جو ہر ایک کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑا دیتا ہے۔
سب سے بہترین کراچی اور لاہور کی سب سے اچھی لوکیشنز کو کیمرے میں عکس بند کرنا ہے جس کے لیے رونگ نمبر کی ٹیم کی تعریف کی جانی چاہیے۔
جو چیز رونگ نمبر کو نمایاں کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا آغاز اور اختتام ایک فلم کی طرح ہوا ہے، کسی ٹیلی فلم کی طرح نہیں۔ اہم کرداروں کو اسکرین پر اپنی موجودگی ثابت کرنے کا پورا موقع دیا گیا ہے، گانوں کو مناسب مواقعوں میں شامل کیا گیا اور لڑائی کے مناظر بھی درست وقت پیش کیے گئے جو فلم کے پلاٹ کو بہتر بناتے ہیں۔
فلم کا اختتام مزید بہتر ہوسکتا تھا مگر چونکہ یہ یاسر نواز کی بطور ڈائریکٹر پہلی فلم تھی اس لیے انہیں کچھ چھوٹ دی جاسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگلی بار وہ زیادہ بہتر انداز میں ایک بڑی ہٹ فلم پیش کریں۔
یہ مضمون ڈان کے سنڈے میگزین میں 2 اگست 2015 کو شائع ہوا.
تبصرے (3) بند ہیں