ملا عمر: افغان مزاحمت کا گوشہ نشین چہرہ
طالبان سوانح نگاروں کے مطابق ملا عمر کی پیدائش افغانستان کے صوبے قندھار کے ضلع خاک ریز کے گاﺅں چاہ ہمت میں سال 1960 میں ہوئی۔ ان کے والد مولوی غلام نبی خاندان کے دیگر اراکین کی طرح ایک مذہبی عالم تھے۔
والد کے انتقال کے بعد ملا عمر صوبہ اورزگان کے ضلع دھراود منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے اپنے رشتے داروں مولوی محمد انور اور مولوی محمد جمعہ کی سرپرستی میں مذہبی تعلیم حاصل کی۔
آٹھ سال کی عمر میں ملا محمد عمر نے دھرادو کے علاقے شیر کونہ میں ایک بڑے مدرسے میں داخلہ لیا۔
افغانستان میں سوویت جارحیت کے بعد ملا عمر روسیوں کے خلاف لڑائی میں شامل ہوگئے اور ایک " سخت جان جنگجو" اور " موثر کمانڈر" کی حیثیت سے نمایاں ہوئے۔
1992 میں افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے اور مجاہدین کے مختلف دھڑوں میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد ملا عمر نے جنگی سرگرمیاں روک دیں اور قندھار کے ضلع میوند کے علاقے سنگ حصار میں واقع گاﺅں جیشان میں ایک مدرسہ کھول لیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے سابقہ مجاہد ساتھیوں کے ساتھ مذہبی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔
صوبہ قندھار میں ایک طالبان عہدیدار مولوی صادق نے 2011 میں کہا تھا کہ سوویت انخلاءکے بعد طالبان تحریک کی تشکیل اور اس کی پیشقدمی اس وقت شروع ہوئی جب قندھار میں ایک مقامی جنگی سردار کے ہاتھوں ایک نوجوان لڑکی کا اغوا اور زیادتی کا واقعہ سامنے آیا۔
مولوی صادق کے مطابق ملا عمر اور ان کے چند پرانے ساتھیوں نے لڑکی کے اغوا اور زیادتی میں ملوث مبینہ جنگی سردار کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا، دیگر مدارس کے طالبعلم بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور یہ گروپ نوے کی دہائی میں طالبان تحریک کی شکل اختیار کرگیا۔
طالبان کے زیرتحت افغانستان کی حکومت کو ' اسلامی امارات افغانستان' کہا جاتا تھا اور اس کا ابتدائی ڈھانچہ افغانستان کے پندرہ سو عالم اور مدارس کے طالبعلموں نے تشکیل دیا جنھوں نے ملا عمر کی اطاعت کرنے کا عہد کیا۔
اطاعت کا یہ ابتدائی وعدہ بتدریج زور پکڑتا چلا گیا اور دیگر علاقوں تک پھیل گیا، خطے کے متعدد مذہبی عالموں نے بھی اس کی حمایت کی۔ اسی دورانیے میں سعودی ارب پتی اسامہ بن لادن اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جن میں سینکڑوں عرب جنگجو اور کمانڈرز بھی شامل تھے، افغانستان منتقل ہوئے اور ملا عمر کی اطاعت قبول کرلی۔
القاعدہ ابھرنے لگی اور اس کے طالبان تحریک سے تعلقات مختصر وقت میں مضبوط ہوگئے خاص طور پر نائن الیون کے بعد جب ملا عمر نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔
اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے علاوہ القاعدہ کے صف اول کے کمانڈرز جیسے مصطفیٰ ابو یزید، ابو یحییٰ اللیبی، شیخ عیسیٰ المصری اور دیگر طالبان میں اثرانداز ہونے میں کامیاب رہے اور انہیں اپنے متعدد خیالات میں تبدیلی لانے پر قائل کیا، جیسے اسلامی فقہ قوانین سے لے کر عالم عالمی مسائل تک کے حوالے سے افغانستان تک محدود ذہنیت کو عالمی جہاد پر منتقل کرنا تھا۔
طالبان کے عوامی بیانات سے قطع نظر جس میں مقامی مزاحمتی تحریک کا تاثر دیا گیا ہے، افغان طالبان نے ایک بار پھر القاعدہ کے حامیوں کو پناہ گاہیں فراہم کیں، اس بار یہ وہ جنگجو تھے جو پاکستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد فرار ہوئے۔
ملا عمر کو حال ہی میں ایک نئے چیلنج کا سامنا ہوا جو کہ خودساختہ دولت اسلامیہ کے سربراہ ابو بکر البغدادی کا ابھرنا تھا۔
اس وقت مسلم عسکریت پسند گروپس کی اکثریت ایسا لگتا ہے کہ البغدادی کی سفاکیت کے مقابلے میں ملا عمر کی نرم سوچ کو ترجیح دیتی ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں