کھیلن کو مانگے چاند نواب
21 جولائی کی دوپہر کو حسبِ معمول پریس کلب پہنچا۔ کلب کے ٹیرس پر ایک بھیڑ لگی ہوئی تھی اور لوگوں کے بیچ نمایاں شخصیت ”چاند نواب“ کی تھی۔ وہ صحافی جو ان سے کل تک کنی کترا کر صرف نظر کرتے تھے، آج ان کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے۔ ہمارے دوست آصف محمود جو جدید قسم کے دو موبائل رکھتے ہیں، ان کا ایک فون چاند بھائی کے کان پر تھا اور دوسرا آصف محمود کے۔ میرے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ دونوں ٹیلی فون پر انڈیا کے ٹی وی چینلز سے کالز آرہی تھیں، اور وہ اسکائپ پر چاند نواب کے انٹرویوز ریکارڈ کر رہے تھے۔
ہمیں دیکھ کر انہوں نے دور سے ہاتھ ہلایا تو ہم نے بھی ہاتھ ہلا کر جواب دیا۔ ہم سے ان کی قربت کی دو وجوہات ہیں: ایک تو یہ کہ ان کا تعلق بھی ہمارے آبائی شہر میرپور خاص سے ہے، دوسرا جب سے ان سے تعلق استوار ہوا ہے وہ ہمیشہ ہم سے بلوچی میں خیر و عافیت دریافت کرتے ہیں۔ خیر کچھ دیر بعد ہم کلب کے بیک یارڈ پہنچے۔ ہمیں ایک کتاب خریدنے اردو بازار جانا تھا۔ چاند بھائی بھی وہاں موجود تھے اور ٹیلی فون پر محوِ گفتگو تھے۔
ابھی ہم نکلنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ چاند بھائی نے فون پر گفتگو ختم کی۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں دیکھتے ہوئے کہا کہ ”بھائی انڈیا سے مرچی والوں کا فون تھا“۔ ہم نے حیرت سے پوچھا کہ ”مرچی والے؟“ ان کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی اور بولے ”بھائی بلوچ! انڈیا کا مرچی ریڈیو“۔ پھر وہ بولے کہ”بھائی کبیر خان کا بھی فون آیا تھا۔“ ہم نے پوچھا کون کبیر خان؟ بولے کہ ”بجرنگی بھائی جان فلم کے ڈائریکٹر۔ انہوں نے مجھے رائلٹی دینے کا بھی یقین دلایا ہے۔ بلوچ بھائی ایک اور بین الاقوامی خبر رساں ادارے کا فون آیا تھا اور کہہ رہے تھے کہ آپ کا انٹرویو اُسی کینٹ اسٹیشن پر کریں گے جہاں آپ نے اپنا مشہورِ زمانہ Beeper دیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ ضرور ضرور، لیکن اس سے آپ تو پیسے کماؤ گے، مجھے کیا دو گے؟ اب تک ان کا فون نہیں آیا۔“
پھر اچانک وہ افسردہ لہجے میں بولے: ”اختر بھائی ترا تو خبریں (تمہیں تو معلوم ہے) میں نے ملازمت کے لیے کتنے ہی چینلوں پر جوتیاں رگڑیں لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ خدا کا کرنا دیکھو کہ اب ان کے رپورٹر میرے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں۔ دل تو نہیں چاہتا کہ ان سے بات کروں لیکن کیا کروں یہ بیچارے بھی نوکر ہیں۔ ان کی نوکری کا مسئلہ ہے اور پھر دوست بھی ہیں۔ اس لیے میں ان سے بات کر لیتا ہوں۔”ما، شر، کوتا“ (میں نے ٹھیک کیا ہے)۔
چاند نواب صاحب کے انٹرویوز کے لیے ایک دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ہم نے ڈان ڈاٹ کام کے ایڈیٹر جہانزیب اور ڈان اردو کے نیوز ایڈیٹر منظر الٰہی سے بات کی کہ کیوں نہ چاند صاحب کا انٹرویو کیا جائے؟ دونوں نے کہا کہ یہ ضرور ہونا چاہیے۔ بالآخر 22 جولائی کو ہم نے چاند بھائی کا نمبر ملایا لیکن ہماری بدقسمتی کہ نمبر مستقل مصروف تھا۔ آخر کار ان سے بات ہوگئی۔ انہوں نے ہمیں انٹرویو کے لیے رات 8 بجے کا وقت دیا۔ یہ ملاقات پریس کلب میں ہونا طے پائی تھی، لیکن 8 بجے تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ ہم نے دوبارہ ان کا نمبر ملایا لیکن حسبِ معمول نمبر مصروف تھا۔ لیکن تھوڑی کوشش کے بعد نمبر مل گیا اور ہم دونوں نے یہ طے کیا کہ پریس کلب کی لائبریری میں انٹرویو ہوگا۔ لیکن لائبریری پہنچتے ہی انہیں ایک فون آگیا جس کے بعد انہوں نے ہم سے معذرت کر لی کہ چونکہ انہیں ہنگامی بنیادوں پر کہیں اور انٹرویو دینے جانا ہے اس لیے کل کسی وقت ہم مل لیں گے۔ اس دوران ہمارے اور ان کے درمیان جو بات چیت ہوئی وہ کچھ یوں ہے:
”اختر: میں نے بات کر لی ہے ڈان والوں سے آپ کے انٹرویو کی۔ ابھی ایک تصویر بنا لیں پھر شروع کرتے ہیں۔“
”چاند نواب: یار ہم تو یہیں ہیں۔ بنا لیں گے بعد میں تصویر۔ کل بنا لیں گے تصویر۔“
”اختر: ایک تصویر ابھی بن جائے گی۔“
”چاند نواب: کل بنا لینا نا یار اختر۔ میں بنوا لوں گا ناں کل۔“
”اختر: ارے یار چاند بھائی ایک تصویر بنانے میں کیا ہوجائے گا؟“
”چاند نواب: بھائی کل بنا لینا ناں۔ آپ کے ساتھ اوپر آجاؤں گا۔ وہیں بنا لینا بس۔ ابھی معاف کر دو یار۔ کل بنا لینا۔“
”اختر: اچھا کل کتنے بجے؟ ٹائم بتا دو۔“
”چاند نواب: یہ میں کل بتا دوں گا۔ آپ نے صرف تصویر بنانی ہے ناں۔“
”اختر: نہیں نہیں! میں نے تو آپ کا انٹرویو بھی کرنا ہے بھائی۔“
”چاند نواب: اچھا کل دیکھیں گے۔ کل کر لینا۔“
ایک آواز آئی کہ ٹائم پوچھ لو۔
”کل کتنے بجے چاند بھائی؟“
”چاند نواب: یار میں بتا دوں گا۔ ابھی نہیں کہہ سکتا۔ آپ نے تصویر بنانی ہے نا انٹرویو کے لیے۔ بن جائے گی اختر بھائی۔“
”اختر: نہیں تو انٹرویو بھی تو میں کروں گا ناں۔ اس کے بغیر تصویر کیسے بنے گی؟؟“
”چاند نواب: یار کل میں آؤں گا ناں پھر۔“
”اختر: ہاں ہاں کتنے بجے؟ ٹائم بتا دیں مجھے۔“
”چاند نواب: یار صبح میں دس بجے جاؤں گا وہاں، کیا نام ہے؟ ایکسپریس جاؤں گا دس بجے۔“
”اختر: ٹھیک ہے۔ پھر؟“
”چاند نواب: اس کے بعد میں بچے کی یونیورسٹی جاؤں گا۔“
”اختر: زبردست۔ پھر؟“
”چاند نواب: اس کے بعد دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔“
”اختر: بارہ ایک بجے کا رکھ لیں پھر؟“
”چاند نواب: میں نے اپنی نوکری کے لیے بھی جانا ہے بھائی پھر۔“
”اختر: اچھا تو کتنے بجے پھر؟ دو تین بجے رکھ لیں؟“
”چاند نواب: میں آپ کو تین بجے تک بتا دوں گا۔“
”اختر: ٹھیک ہے، میں تین بجے کے بعد آپ کو فون کر لوں گا۔“
”چاند نواب: ہاں صحیح ہے کر لینا۔“
”اختر: میں کہہ رہا تھا کہ ایک تصویر ابھی بنوا لیتے۔ تصویر بنوانے میں کیا مسئلہ ہے؟“
”چاند نواب: ارے کل دیکھیں گے۔ ایک کی جگہ تین بنا لینا میرے بھائی تم۔“
”اختر: چلو ٹھیک ہے۔“
”چاند نواب: اچھا چلتا ہوں۔“
یہ تو تھی ہماری اور چاند نواب کی گفتگو لیکن جس طرح وہ مصروف ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ان کا انٹرویو شاید آئندہ چند دنوں میں نہ کر پائیں۔ اس موقع پر ہمیں ایک کلاسیکل نغمہ یاد آرہا ہے ”انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند“۔ معروف موسیقار اور سِتار نواز نفیس خان کے مطابق اسے کلاسیکل گائیکی میں خیال کہا جاتا ہے اور یہ راگ درباری ہے۔ اس کی بندش صدیوں پرانی ہے۔ ایک دیو مالائی کہانی ہے کہ اکبرِ اعظم کے بیٹے نے ایک دن چاند دیکھ کر یہ ضد کی تھی کہ مجھے چاند چاہیے، جس پر ان کے درباری گوئیے تان سین نے یہ بندش جوڑی تھی۔
مجھے یہ بات ماننے میں کسی طور بھی انکار نہیں کہ میں نے چاند نواب سے انٹرویو کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوگیا۔ میں خود کو انوکھا لاڈلہ محسوس کر رہا تھا جسے کھیلنے کے لیے چاند چاہیے تھا۔ خیر اگلے روز جب دوپہر دو بجے ہم پریس کلب پہنچے تو وہ پی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور چلا کر بولے، ”بس دس منٹ“۔ ہم ان کے ہمراہ بیٹھ گئے۔ ان سے انٹرویو کیا تھا ایک آگ کا دریا تھا اور ڈوب کے جانا تھا۔ سوالات کے دوران انہیں کسی نہ کسی قومی یا بین الاقوامی صحافتی ادارے سے کال موصول ہوتی اور وہ معذرت کرتے ہوئے اس کا جواب دیتے۔ ہم نے جو انٹرویو کیا، وہ کچھ یوں ہے:
چاند نواب: سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ اس کا جتنا شکر ادا کروں وہ کم ہے۔ سب سے پہلے پاکستان اور پاکستانی۔ آج دنیا میں میرا نام روشن ہے، تو پاکستان کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ دیکھیں انڈیا میں فلم بنی تو کہا پاکستانی جرنلسٹ، پاکستانی صحافی۔ پھر میں اپنے تمام سینیئر صحافیوں کا شکر گذار ہوں کہ انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور ہمت بندھائی اور جشن منا رہے ہیں۔
یہ کلپ جب آیا تو میں مایوس ہوگیا تھا کہ اب صحافت بہت مشکل ہوجائے گی۔ جگہ جگہ جاتا تھا میرٹ پر نوکری نہیں ملتی تھی۔ کہتے تھے تمہاری کلپ جو ہے اسی کی وجہ سے نوکری نہیں مل سکتی۔ دروازے بند کر دیتے تھے۔ سینئر نفرتیں کرتے تھے۔ جو کل تک مجھ سے محبت کرتے تھے، اب نفرتیں کرنے لگے تھے۔ میں انسان ہوں سچی بات بولوں گا۔ میں جھوٹی بات نہیں کرتا اختر بھائی۔ دیکھیں کینٹ اسٹیشن پر میں پی ٹی سی دینے گیا۔ آخری ٹرین تھی اس کے بعد کوئی ٹرین بھی نہیں تھی۔ کیونکہ مجھے پیکیج بنانا تھا، ظاہر ہے تنخواہ لے کر بچوں کو شاپنگ بھی کروانی تھی۔ ٹھیک ہے ناں! اپنا بھی تھا اور پھر عید کے لیے بھی پیکیج بنانا تھا۔
سب سے پہلے تو ہمارے یہاں صحافیوں کی ٹریننگ کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ میں بھی ایم اے ماسٹرز کر کے آیا ہوں۔ پولی ٹیکنیک سے ڈپلومہ بھی کیا۔ الحمداللہ اس شہر میں اس ملک میں جو زبانیں بولی جاتی ہیں، اردو سندھی پنجابی بلوچی، اور فارسی و عربی بول سکتا ہوں اور عبور حاصل ہے مجھے۔ لیکن مجھ پہ میرٹ کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے لیکن آج اللہ کا شکر ہے۔
آپ کو پتہ ہے اختر بھائی کہیں بھی کیمرہ لگا ہو ایک آتا جاتا ہے دوسرا آتا جاتا ہے۔ میری بھی غلطی تھی کہ مجھے ایسی جگہ نہیں کھڑا ہونا چاہیے تھا جہاں پبلک پلیس ہے۔ کیونکہ دیکھیں اگر ہمارے یہاں یونیورسٹی یا کہیں جامعات میں پڑھایا جاتا کہ آپ نے اس جگہ پر نہیں کھڑا ہونا ہے تو میں بھی نہیں کرتا ایسی غلطی جس کی وجہ سے دروازے بند ہوئے۔
اختر بھائی دیکھیں بڑے بڑے صحافیوں سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ وہ کیوں کہ بڑے ہیں میں چھوٹا ہوں، اس لیے مجھ پریہ ہوا۔ سیاست دان اینکروں کے ساتھ پروگراموں میں بیٹھتے ہیں، گلاس توڑتے ہیں، ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں، پنچ مارتے ہیں پھر بھی ان کی ریٹنگ بڑھتی جاتی ہے۔ ان کو پھر بھی بلایا جاتا ہے لیکن میرے لیے میرے اپنے دوست جو ڈائریکٹر نیوز بنے، کہنے لگے یہ تو مذاقیہ کلپ ہے۔ اس وقت میں نے کہا مذاقیہ پروگرام کرا لو مجھ سے، مگر کروا تو لو۔ لیکن دروازے بند کر دیے۔ لیکن اللہ تیرا شکر ہے مجھے آج پاکستان کے سارے چینلز سے آفرز بھی آرہی ہیں۔ باہر سے، انڈیا سے فلموں میں کام کرنے کی بھی آرہی ہیں۔
باہر کے ٹی وی چینلز آپ نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں مجھے کانٹریکٹ لیٹر بھی بھیج رہے ہیں کہ جی آپ ہمارے ساتھ کام کر لیں۔ اس کو فنی کلپ کہا گیا۔ مجھے خود بھی پتہ نہیں تھا ایک پروفیشنل صحافی ورکنگ جرنلسٹ کے طور پر آپ بھی سمجھتے ہیں فیلڈ میں کتنی مشکل ہوتی ہے۔ تین ڈبے ٹرین کے رہ گئے۔ میرا اپنے پروفیشن صحافت سے یہ لگاؤ تھا جس کی وجہ سے یہ ریلیز ہوا۔ سیاست دان بڑے بڑے ٹی وی چینلوں میں اینکروں کے گلاس توڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ ان پر تو پابندی نہیں لگائی گئی مجھ پر کیوں لگائی گئی۔
میں شکر گذار ہوں بجرنگی بھائی جان کے ڈائریکٹر کبیر صاحب کا، سلمان صاحب کا، جس نے کردار ادا کیا چاند نواب کا نوازالدین صدیقی اس کا شکر گزار ہوں، انہوں نے مجھے بڑی محبت دی ہے۔ انہوں نے میرا کردار بہت اچھے طریقے سے کیا ہے، اگر وہ نہیں کرتے تو آپ میرا انٹرویو کرتے؟ یہاں لوگوں کے انٹرویو آپ کر رہے ہوتے تھے میں دیکھتا تھا کہ اللہ کرے میرا بھی کرنے آجائیں۔ اختر بھائی نے بھی لفٹ نہیں کروائی، کسی نے بھی لفٹ نہیں کرائی۔ آج دیکھیں ناں یہ انور بھائی جو آئے ہیں، مجھ سے ہاتھ ملا رہے ہیں، یہ سب اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے ورنہ میں ان کے دفتر میں باہر بیٹھ بیٹھ کر آجاتا تھا یہ لفٹ نہیں کرواتے تھے۔
مجھے جو آج عزت ملی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ملی ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ جس کو عزت دے یا ذلت دے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عزت ہے، میری فیملی کی دعاؤں سے اور میرے دوستوں کی دعاؤں سے جن کو میں نہیں بھولتا۔ آج بھی میں ان کے ساتھ مل کے بیٹھتا ہوں۔ وہی ٹوٹی موٹر سائیکل پر سفر کرتا ہوں۔ میرا بیک گراؤنڈ دیکھتے، میری تعلیم، میرے ایکسپیریئنس کو تو دیکھ لیتے خدا کے لیے۔
دیکھیں جو یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آتے ہیں، ان کے پاس کوئی تجربہ تو نہیں ہوتا نا۔ ہمارے یہاں ہماری کے یو جے، پی ایف یو جے، یو جے اور پریس کلب کون تربیت کرواتا ہے۔ ہمارے وفاقی وزیر پرویز رشید، وزیرِ اعظم صاحب اور سب سے میں کہتا ہوں کہ خدارا یونیورسٹیوں سے جو نکل کر آتے ہیں، فیلڈ میں آجاتے ہیں ان کی ٹریننگ کے انتظامات کروائے جائیں تاکہ بہتر امپیکٹ جائے پوری دنیا میں کہ پاکستانی صحافی بہت اچھے ہیں۔ ویسے پاکستانی صحافی بہت اچھے ہیں۔
دیکھیں اختر بھائی میری فیملی نے مجھے سپورٹ کیا ہر طرح سے۔ ٹھیک ہے۔ ہر طرح سے سپورٹ کیا کہ کوئی بات نہیں تم نماز پڑھو، اللہ سے دعا کرو، درودِ ابراہیم پڑھو۔ میں مسجد میں نماز پڑھتا، پتہ ہے میں مایوس ہوگیا تھا۔ لوگ میٹھی میٹھی لچھے دار باتیں کرتے کہ ہاں آجانا، سی وی دے جانا۔ سب پاکستانی صحافی میرے دوست ہیں اور جو مجھے چینل بلائے گا میں خود چل کے جاؤں گا۔ میرے اندر نہ کوئی غرور ہے نہ کچھ ہے، میں صحافی ہوں پھر میں نے صحافت ہی کرنی ہے ناں۔ تو میں کیوں کسی سے ناراض ہوں۔
میں تمام اپنے دوستوں سے سینیئرز سے معافی مانگتا ہوں۔ اختر بھائی ابھی تو سارے انٹرویوز چل رہے ہیں۔ محبتیں ہیں انٹرویوز کیا ہیں؟ یہ آپ لوگوں کی محبتیں ہیں کہ آپ بتانا چاہ رہے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان اور آج یہ عزت شہرت ملی ہے اور جو خوشی ہے میں سانحہ پشاور کے بچوں کے والدین کے نام کرتا ہوں۔"
یہ تو تھا چاند نواب صاحب کا انٹرویو جو ہم نے بڑی مشکل سے کیا۔ اب میں آپ کی خدمت میں ایک اور چینل کا کلپ پیش کرتا ہوں جسے دیکھنے کے بعد شاید کوئی پاکستانی فلم ساز اپنی فلم میں اس سین کو شامل کر لیں۔
تبصرے (10) بند ہیں