• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

قومی زبان صرف ایک کیوں؟

شائع July 23, 2015
پاکستان میں کم و بیش 70 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 28 ایسی ہیں جو آئندہ دس سالوں میں ختم ہو جائیں گی — فائل فوٹو
پاکستان میں کم و بیش 70 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 28 ایسی ہیں جو آئندہ دس سالوں میں ختم ہو جائیں گی — فائل فوٹو

گزشتہ سال مئی میں وفاقی کابینہ نے پاکستان کی قومی زبان اردو کو سرکاری زبان بنانے کے احکامات جاری کئے تھے۔ ان احکامات پر عمل درامد ایک سال کے بعد گزشتہ دنوں کابینہ ڈویژن کی طرف سے مختلف محکموں کو حکم نامے جاری کرتے ہوئے شروع کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس حکم نامے میں تمام محکموں اور افسر شاہی کو کہا گیا ہے کہ وہ سرکاری احکامات و مراسلے اردو میں جاری کرے اور پہلے سے موجود دستاویزات کو بھی اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ اس اقدام کے ذریعے صدر، وزیراعظم اور وزراء کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اندرون ملک و بیرون اپنے خطابات اردو میں ہی کرے۔

سرکاری حکام کے مطابق یہ 1973 ء کے آئین کی شق نمبر 251 پر مکمل عمل درآمد کی جانب ایک اہم قدم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ پندرہ سالوں میں انگریزی زبان کی سرکاری حیثیت کو اردو میں منتقل کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے تاکہ اردو کو مکمل طور پر پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو۔

یہ پڑھیں: صدر اور وزیراعظم بیرونی دوروں کے دوران اردو میں تقریر کے پابند

پاکستان میں اردو زبان کو رابطے کی زبان ہونے کا درجہ حاصل رہا ہے۔ اردو ذرائع ابلاغ کی اہم زبان ہے۔ پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کے قیام نے بھی اردو کو کافی حد تک عوامی مقبولیت بخشی ہے۔ پاکستانی معاشرہ پہلے ہی سے کافی حد تک اردو اپنا چکا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تحقیق، تنقید اور ادب میں اردو زبان کی پستی مشاہدہ میں آئی ہے۔ ہر سال جتنی کتابیں اردو میں شائع ہوتی ہیں ان میں بہت کم تعداد اعلی ادب کی ہوتی ہیں۔ ذیادہ تر کتابیں، کتابچے اور رسائل مذہبی و فرقی منافرت کے پرچار کے لئے اردو زبان کو ذریعہ بناتے ہیں۔ اب بہت کم ہی لوگ ہوں گے جو اردو میں اعلی ادب تخلیق کر رہے ہوں البتہ کالم نگاروں کی تعداد پڑھ گئی ہیں جو اردو کے ذریعے اپنے کالموں میں ایک خاص ذہنیت کو فروغ دے رہے ہیں۔ شاید ہی کوئی ہو جو اب بھی اردو میں فیض، منیر، ابن انشا، مشتاق احمد یوسفی یا پھر علی عباس جلالپوری کی طرح اردو کو اعلی اظہاریے کا ذریعہ بنا رہے ہوں۔

ایسے میں حکومت کی طرف سے اردو کو سرکاری زبان بنانے کی کوشش قابل تعریف ہے۔ البتہ پاکستانی ریاست زبانوں کے سلسلے میں اپنے وجود میں آنے سے ہی ایک تعصب برتی رہی ہے۔ مثلاً اسی حکومت کی قومی اسبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انصاف و قانون نےپچھلے سال جولائی میں ایک ایسے بل کی مخالفت کی جسے قومی اسمبلی کی رکن ماروی میمن نے پیش کیا تھا۔

اس بل میں پاکستان میں اردو کے ساتھ دیگر نو زبانوں کو بھی قومی زبانوں کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اسی طرح کا ایک بل سینیٹر حاجی عدیل کی طرف سے پیش کیا گیا تھا مگر قانون نہیں بن سکا تھا۔ اس سے پہلے 2011 ء میں بھی ماروی میمن کی طرف سے پیش کردہ ایک ایسے ہی بل کو مسترد کیا گیا تھا۔

یہ پڑھیں : علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کا بل مسترد

دلچسپ امر یہ ہے کہ ان بلوں کو آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت ہی مسترد کیا گیا تھا جس کی بنیاد پر اب اردو کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پاکستان میں اردو اور انگریزی کے علاوہ کم و بیش 70 دیگر زبانیں بھی بولی جاتی ہیں جن میں بعض کے بولنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں تو بعض کے بولنے والے کئی کروڑں میں ہے۔

اگرانڈس کوہستان میں بولی جانے والی زبانیں آیر اور گاؤرو کے بولنے والوں کی تعداد 150یا 200 ہے تو پنجابی کو کم از کم چھ کروڑ لوگ پاکستان میں بولتے ہیں۔ مگر تینوں زبانوں کے بارے میں ریاست اور دیگر اداروں کے رویّے ایک جیسے ہیں۔

ان ستّر زبانوں میں یونیسکو UNESCO کے مطابق 28 ایسی ہیں کہ وہ آئندہ دس سالوں میں ختم ہو جائیں گی اور یہ زبانیں اپنے ساتھ جس علم، حکمت، ثقافت، شناخت اور تاریخ کو لے ڈوبیں گی اس کا احساس شائد ہی ان عاشقوں کو ہو۔

کسی بھی زبان کے ایک ایک لفظ اور جملے کے ساتھ ایک تاریخ اور ثقافت جڑی ہوتی ہے۔ مثلاً میری زبان کا لفظ ’سیمام ‘ عام بول چال سے معدوم ہوچکا تھا جب ذندہ کیا گیا تو اس کے ساتھ آٹھ دہائی پہلے والی ایک پوری ثقافت جُڑی ہوئی تھی جس کے رسوم شادی بیاہ میں بروئے کار لائے جاتے۔ اس لفظ کے دوبارہ استعمال میں آنے سے اس وقت کی سماجی تاریخ بھی زندہ ہوگئی۔ اردو کے تاریخ دان ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح لفظ اردو رواج پایا۔ فرض کریں اس لفظ کو ہی بھلادیں تو اس کے ساتھ وہ تاریخ بھی مٹ جائے گی۔

مزید پڑھیں: میڈیا میں اردو زبان کا غلط استعمال

زبان ثقافت (culture) کی بقا اور اظہار کا اہم ترین ذریعہ ہوتی ہے۔ جب زبان مٹ جائے تو اس کے ساتھ ثقافت اور تاریخ بھی مٹ جاتی ہیں۔ چترال کی تین وادیوں میں بسنے والےکلاشہ لوگوں کی ثقافت کو ریاست اور اس کے ادارے پاکستان میں ثقافتی تنوع کے نمونے کے طور پر پیش کررہی ہیں۔ لیکن شائد ہی کسی کو پتہ ہو کہ جب کوئی کلاش اپنی زبان چھوڑتا ہے تو وہ اس کے ساتھ جڑی ہوئی اپنی ثقافت اور مذہب بھی چھوڑ دیتا ہے۔

’علاقئی زبانوں ‘ کے علاوہ دیگر ساری آبائی مادری زبانیں معدومی سے دوچار ہیں۔ ان زبانوں کے بولنے والے اس دھرتی کے اصل باشندے ہیں مگر اسی دھرتی پر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔

اردو کو سرکاری اور قومی زبان بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت دیگر پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دے اور ان کے تحفظ و فروغ کے لئے انہیں تعلیم، قومی ابلاغ اور ورثے میں شامل کرے۔

زبیر توروالی

زبیر توروالی انسانی حقوق کے کارکن اور ریسرچر ہیں۔ وہ ادارہ برائے تعلیم و ترقی سوات کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ztorwali@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

عائشہ بخش Jul 23, 2015 03:53pm
مجھے یہ مضمون درست نظر نہیں آرہا۔ دائیں طرف سے کافی زیادہ کٹ رہا ہے ۔ شاید کوئی فنی خرابی ہے ۔
سجاد خالد Jul 23, 2015 04:47pm
اچھی تحریر۔ اُردو کے ساتھ ساتھ اہم علاقائی زبانوں کو کم از کم صوبائی مراکز کی متبادل زبان کا درجہ ملنا چاہئیے۔ اس طرح ہمارے تخلیقی وجود کو اعتماد ملے گا، اپنے باطن کے اظہار کا موقع میسر آئے گا اور ایک گونگی بہری قوم پھر سے بولنے لگے گی۔ سرکاری زبان بننے سے ہم اپنی زبانوں میں اچھا ادب، معیاری تخلیق اور اعلٰی تنقید پیش کر سکیں گے۔ رہی بات اُردو کے موجودہ استعمال کی تو جہاں مذہبی طبقوں نے اسے تعصبات پھیلانے میں استعمال کیا ہے وہیں اسی طبقے نے اُردو میں اچھا تحقیقی مواد بھی پیش کیا ہے۔ اُردو زبان میں دُنیا کی کسی بھی زبان سے زیادہ تفاسیرِ قرآن اور تراجم قرآن کے ساتھ نعتیہ ادب میں بیش قیمت اضافے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ اگر یہ قانون اپنی روح کے ساتھ نافذ ہو (جس کی اُمید بھی فی الحال خیالِ خام لگتی ہے) یوسفی، ابنِ انشاء، مجید امجد، فیض، پطرس، غالب، میر، ابوالکلام، شبلی کے ساتھ ساتھ بلھے شاہ، شاہ حُسین، میاں محمد بخش، وارث شاہ اور نجانے کتنے مقامی ہیرو پھر سے زندہ ہو جائیں
Yahya Kurd Jul 23, 2015 09:43pm
اپ کا کالم عمدہ ہے ، پاکستان ، افغانستان سے بھی زبان کے معاملے میں بد تر ملک ہے جہاں سرکاری زبانین چھ ہے جن میں بلوچی، دری،پشتو، پشی،ھزارگی ازبک ترکمن Pashto, Dari, Hazaragi, Uzbek, Turkmen, Balochi, Pashayi اور دیگر ہے ہیاں پر تو صرف اردوہی سب کچھ ہے۔
Ahmad Jul 23, 2015 09:47pm
براہ مہربانی اور کسی زبان کو قومی زبان کا درجہ نہ دیا جائے ورنہ ان کا حال بھی اردو جیسا ہی ہو گا۔ ہاں صوبوں کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنی اپنی زبانوں کو جو بھی درجہ دینا چاہیں دے دیں۔
یمین الاسلام زبیری Jul 24, 2015 07:20am
بہت عمدہ مضموں ہے۔ کوئی بھی زبان جب تک سرکاری نہ ہو اس کے ختم ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ہماری حکومت کے پاس انتے وسائل ہیں کہ وہ ملک کی تمام زبانوں پر توجہ دے سکے لیکن وہ اتنا تو کر سکتی ہے کہ ہر سال چھوٹی زبانوں پر تحقیق کرنے والے موجود ہوں، خواہ ایک ہی اْدمی اپنے علاقے کی کئی زبانوں پر تحقیق کرتا ہو۔ پھر اسے اچھی ملازمت بھی فراہم کی جائے۔ جہاں تک بڑی زبانوں سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو اور سرائیکی وغیرہ کا تعلق ہے تو انہیں ان کے علاقوں میں سرکاری درجہ ملنا چاہیے ہے۔
Faisal Hussain Jul 24, 2015 01:11pm
For God sake we are already divided on several things so please dont raise another issues. Urdu is a richest language and we are satisfied on it as National Language.

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024