فلم ریویو : بن روئے

شائع July 22, 2015 اپ ڈیٹ July 23, 2015

بطور قوم ہم رومانوی رونے دھونے سے محبت کرتے ہیں۔ ہم اس کی مکمل وضاحت کریں تو کچھ اس طرح ہوگی، غور و فکر کرنے والا ہیرو، چاند جیسی آنکھوں والی ہیروئین، گانے، رقص، موت اور خوشگوار اختتام یا ہیپی اینڈنگ۔

اور ہم شوخ رنگوں، زبردت فیشن اور حسین چہروں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ بیشتر لڑکیاں ماہرہ خان جتنی حسین نہیں ہوسکتیں اور ان سب عوام کے پیش نظر ہم فلم کی ' بن روئے' ممکنہ طور پر باکس آفس پر کامیاب ہونے والی ہے۔

ہم نیٹ ورک اپنے ہٹ ڈراموں کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور اس کو دیکھتے ہوئے کیا بن روئے اکثر مواقعوں پر ڈرامہ موڈ کی جانب بڑھتی نظر آتی ہے؟ ہاں توقع کے مطابق ڈرامہ ڈائریکشن میں مہارت رکھنے والی مومنہ درید کی یہ فلم بھی ڈرامائی وقفوں سے بھرپور ہے۔ یہاں تک کہ کہانی بھی فرحت اشتیاق کے ناول سے اخذ کی گئی ہے جنھوں نے انتہائی مقبول ڈرامہ ' ہمسفر' تحریر کیا تھا جو کہ مومنہ دورید کی شناخت بن جانے والا رومانوی ڈرامہ تھا۔

اکثر مواقعوں پر اگرچہ ڈائریکٹر مومنہ درید اور شہزاد کشمیری نے سین کو زیادہ کھچنے نہیں دیا جس سے فلم کی رفتار پر اثر پڑا مگر پھر بھی وہ پلاٹ کو دلچسپ رکھنے میں کامیاب رہے۔ بن روئے کرن جوہر کی فلموں کی طرح ہے یعنی شفیق دادی، خوش باش والدین، مضبوط خاندانی اقدار، امریکا کے دوروں کے دلچسپی بڑھانے والے مناظر اور سر تا پا ڈیزائنر ملبوسات۔ ہاں خاندان کبھی کبھار کسی کی اچانک موت پر مایوسی کے دلدل مین دھنس جاتا مگر وہ معجزانہ طور پر اس پر فوری قابو پاکر باہر بھی نکل آتا۔

آپ تو ہوسکتا ہے کہ جرائم زدہ، لوڈشیڈنگ سے متاثر کراچی میں اتنی اچھی زندگی کے بارے میں جانتے ہی نہ ہو اور یہ بات بھی ہے کہ اس وقت بجلی کی کمی کی کسے پروا ہو جب کوئی دل ہاتھوں میں لینے کی دوہری مشکل کا شکار ہو۔

صبا (ماہرہ خان) اپنے کزن ارتضیٰ (ہمایوں سعید) سے دیوانہ وار محبت کرتی ہے۔ جس کا اظہار وہ مختلف اداﺅں کے ساتھ کرتی بھی ہو، جیسے اپنے لیے چوڑیاں اور آئس کریم خریدنے پر مجبور کرنا اور چاند رات پر اس کے ساتھ رقص کرنا۔ مگر خود میں گم ارتضیٰ پھر بھی ان واضح اشاروں کو سمجھنے میں ناکام ہوجاتا ہے اور صبا کو اپنی ' بہت اچھی دوست' تصور کرتا ہو، جس دوران امریکا کے ایک دورے پر وہ اپنی ایک اور کزن سمن (ارمینہ رانا خان) کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔

قسمت کی چکربازیوں سے انکشاف ہوتا ہے کہ سمن درحقیقت صبا کی بہن ہے اور خود پر بجلی گرجانے کے بعد وہ بے بسی سے ارتضیٰ کو اپنی محبت میں گرفتار اور شادی کرتے دیکھتی رہ جاتی ہے۔

یہاں سے کہانی میں پیچیدگی اور موڑ آتے ہیں جس کے دوران بہت زیادہ آنسو اور دل توڑنے کے واقعات ' خوشی کی جانب' لے جاتے ہیں۔ اس فلم کو بہت اچھے انداز میں فلمایا گیا ہے۔ فلم کے دوسرے ہاف میں شادی اور عید کے پرمسرت رنگوں کو گہرے رنگوں اور سایوں میں پیش کیا گیا ہے۔ فلم کے سیٹس بہترین ہیں جبکہ سینمافوٹوگرافی بہترین ہے، کہانی بھی خالص رومان، دکھ اور خوشی پر مبنی ہے۔

بن روئے مکمل طور پر ماہرہ خان کی فلم ہے۔
بن روئے مکمل طور پر ماہرہ خان کی فلم ہے۔

ماہرہ خان نے ممکنہ طور پر صبا کے کردار میں اپنی اب تک کی سب سے بہترین اداکاری کی ہے اور حسد، غصہ، پچھتاوا اور درد کے جذبات کو بہترین انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

ایک خاص منظر میں ماہرہ نے اس وقت اپنی چوڑیاں توڑ دیں جب ارتضیٰ زندگی بھر کے بندھن میں بندھ جاتا ہے۔ بن روئے بلاشبہ ماہرہ خان کی فلم ہے اور وہ لگ بھگ ہر منظر کا حصہ ہیں جو اپنے نازک کندھوں پر پلاٹ کا بوجھ لے کر آگے بڑھتی رہی ہیں۔

جاوید شیخ اور زیبا شہناز ہنستے مسکراتے والدین کے کرداروں میں کچھ زیادہ متاثر کن نہیں رہے۔ انھیں اندازہ بھی نہیں ہوپاتا کہ ان کی بیٹی کی زندگی میں کیا کچھ چل رہا ہے۔ نرم لہجے والی ارمینہ سمن کے کردار میں بمشکل ہی توجہ حاصل کرپاتی ہیں۔ ہمایوں سعید اچھے اداکار ہیں مگر وہ بھی زیادہ متاثر کرنے میں ناکام رہے۔ درحقیقت وہ اپنی دو جوان ہیروئینز کے مقابلے میں زیادہ بڑی عمر کے نظر آرہے تھے جیسا پلاٹ میں زور دیا گیا ہے ' ارتضیٰ کی عمر 30 سال سے کچھ زیادہ ہے'۔ تاہم کوئی کم عمر اداکار آن اسکرین ہیروئینز کے ساتھ زیادہ اچھا نظر آتا مگر ہمایوں کی اداکاری اچھی رہی۔ انہیں ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے کا برسوں پرانا تجربہ ہے جبکہ وہ عوام کے پسندیدہ لوور بوائے ہیں اور فلم میں بھی ایسا ہی نظر آتا ہے۔

ارمینہ رانا خان کو زیادہ پراعتماد سمن بن کر سامنے آنا چاہئے تھا۔
ارمینہ رانا خان کو زیادہ پراعتماد سمن بن کر سامنے آنا چاہئے تھا۔

فلم کا ایک خاص پہلو اس کے مدھر گانے رہے۔ عابدہ پروین اور زیبر بنگش کا ' مولا مولا' نہ بھولنے کی حد تک اداس کردینے والا ہے، نصرت فتح علی خان نے اپنے رومانوی گانے ' تیرے بناءجینا' کے ساتھ دل میں اتر جاتے ہیں اور شادی کا گیت ' بلے بلے' مہمان ڈائریکٹر عاصم رضا اور عدیل حسین کے ساتھ پیروں کو تھرکنے پر مجبور کردیتا ہے۔

فلم کا پلاٹ کافی بوجھل ہے اور اس میں بمشکل ہی مزاح کا ریلیف ملتا ہے جبکہ ڈائیلاگ مزید دلچسپ ہوسکتے تھے۔ کہانی بھی مزید دلچسپ ہوسکتی تھی اگر فلم کی ٹیم ہر کردار کے رنگوں کو تشکیل دینے کی کوشش کرتی مگر اس کے برعکس زیادہ توجہ زندہ دل صبا پر دی گئی۔ ماہرہ قدرتی طور پر ہی خوبصورت نظر آتی ہیں جبکہ ان کے ملبوسات فلم کے بہترین فیچرز مین سے ایک رہے۔

اس کے مقابلے میں ارمینہ نے بہت زیادہ شوخ ملبوسات میں نظر آئیں، ان کا میک اپ بھی حد سے زیادہ تھا اور ایسا لگتا تھا کہ وہ ہر وقت شادی میں جانے کے لیے تیار ہورہی ہیں۔ ہمایوں سعید شلوار قمیض میں اچھے نظر آئے مگر دیگر مواقعوں پر ان کی شخصیت کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑ پائی۔ ہیرو کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے ملبوسات کا خیال رکھنا اس کردار کو زیادہ بہتر بناسکتا تھا۔

مگر ایک معمولی سی خامی جو فلم کے خلاف جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فلمیں تفریح کے لیے ہوتی ہیں کسی کے جذبات بھڑکانے کے لیے نہیں۔ مومنہ دورید محبت کی کہانیاں عکس بند کرنے میں مہارت رکھتی ہیں اور وہ اپنی اس صلاحیت کو سینما اسکرین پر اپنے ڈیبیو پر سامنے لائی ہیں۔

یقیناً رونا اور دل ٹوٹنا اکتا دینے والا اور دائمی محبت سے محروم کردار باآسانی بن روئے کو خواتین کو متوجہ کرنے والی فلم کا درجہ دلاسکتے ہیں مگر یہ ایک اچھی اور اتنی دلچسپ ضرور ہے کہ مرد بھی اسے بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔

یہ ایک علامت بھی ہے کہ ہمارا سینما اپنی بحالی کی جدوجہد میں کس حد تک بہتری کی جانب گامزن ہے۔

ملیحہ رحمان

ملیحہ رحمان فیشن اور لائف اسٹائل جرنلسٹ ہیں، اور لکھنے سے گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: maliharehman@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

عائشہ بخش Jul 22, 2015 09:15pm
اچھا تبصرہ ہے ۔ اس پر مزید تبصرہ نہیں کرنا چاہے
سکندر علی سومرو Jul 23, 2015 04:46pm
اچھا ہے جو نظر آتاہے، لیکن ہر نئی فلم کے رلیز ہونے کہ بعد ایک ہی کلمہ کیوں پڑھا جاتا ہے اس فلم سے پاکستانی سینما پھر سے اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی۔ یہ تو بلکل اسی طرح کا جملہ ہے کہ پاکستان اس وقت نازک دور سے گذر رہا ہے۔میری ناقص رائے میں پاکستانی سینما اس دن سے بحال ہو چکی جس دن شعیب منصور نے اپنی فلم خدا کے لیے پیش کی۔جس سے ان لوگوں کا حوصلہ بڑھا جو فلم بنانا چاہتے تھے اور یوں یہ سلسلہ چل پڑا ہے اب اور ہم دیکھا کہ ایک بعد دو کے بعد تین تین اچھی موویز سال میں آگئیں اور آرہی ہیں جیسے بول، وار، میں ہوں شاہد آفریدی۔ اب تو مقابلا بھی ہونے لگا ہے۔ نامعلوم افراد کے بعد رانگ نمبر، بن روئے۔ہاں اگر ضرورت ہے تو حکومتی آشریوادکی ہماری اکثریت اب بھی فلم کے بزنس کو مذھب کے خلاف سمجھتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے بیشتر سیاستدان اس کام کو سپورٹ کرنے سے کتراتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک ایسا ذریعہ اظہار جس سے ہم اپنے ملک کا سافٹ امیج، ثقافت، زبان، رہن سہن، اور تو اور اسلامی اقدار کو بھی بہت اچھے طریقے سے دنیا کے سامنے لاسکتے ہیں۔ سلام ہے ان لوگوں کو جوباوجود اس کہ یہ فلم چلے یا نا بھر بھی فلم بناتے ہیں،
سکندر علی سومرو Jul 23, 2015 04:48pm
بلکل صحیح۔
muhammad adeel Jul 24, 2015 11:46am
i want to say that our greatest journalism which are issues some reports for some days/ moments but after some days this news are closed in cover and cannot be opened.

کارٹون

کارٹون : 25 دسمبر 2025
کارٹون : 24 دسمبر 2025