کمبخت الیکٹرک
ٹائمز آف انڈیا میں 18 جون 2015 کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق "اگلی بار اگر غیر اعلانیہ طور پر آپ کی بجلی گئی، تو دہلی حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ آپ کو اس کا معاوضہ ادا کیا جائے۔"
خبر کے مطابق "اگر آپ کی بجلی کمپنی ایک گھنٹے میں بجلی بحال کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے، تو پہلے دو گھنٹوں کے لیے اسے ہر صارف کو 50 روپے فی گھنٹہ ادا کرنے ہوں گے، اور دو گھنٹوں کے بعد ہر گھنٹہ گزرنے پر 100 روپے فی گھنٹہ ادا کرنے ہوں گے۔"
ختم ہوتی ہوئی بیٹری اور ایک سست انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ میں دہلی میں بجلی جانے پر معاوضے کی خبر پڑھ رہا ہوں۔ مجھے یہ بلاگ لکھنا ملتوی کرنا پڑا کیونکہ میں اندھیرے میں ڈوبے ہوئے اس شہر میں رہتا ہوں جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلایا کرتا تھا۔ اس کا کریڈٹ کے الیکٹرک کو جاتا ہے، جو اپنے آفیشل ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر خود کو پاکستان کی سب سے بڑی بجلی کمپنی کے طور پر متعارف کرواتی ہے۔
پڑھیے: کراچی میں بجلی کے بریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری
4 بجے میں نے ایک نیوز چینل پر ٹِکر دیکھا، "کراچی کے تمام علاقوں میں بجلی کی فراہمی بحال کر دی گئی ہے: ترجمان کے الیکٹرک۔"
اور اس کے ساتھ ہی بجلی چلی گئی، جو 8 گھنٹے بعد، اور کچھ علاقوں میں 10 سے بھی زیادہ گھنٹوں بعد آئی۔ کچھ ہی دیر میں میری ٹوئٹر ٹائم لائن بجلی کی بندش پر مذمتی ٹوئیٹس سے بھر گئی تھی۔
|
ایسے کسی بھی واقعے کی صورت میں کے الیکٹرک ایک ہی توجیہ بار بار پیش کرتی ہے: 'یہ' اور 'یہ' فیڈر ٹرپ کر گئے ہیں، جبکہ "ٹیمیں بحالی کے لیے کام کر رہی ہیں۔"
کیا حکومتِ سندھ کے الیکٹرک کو اس بات کا پابند بنا سکتی ہے کہ وہ بجلی کی غیر اعلانیہ معطلی پر اپنے صارفین کو ادائیگی کرے؟
حیرت انگیز: بجلی کا بریک ڈاؤن، بچہ 'ٹارچ' بولنا سیکھ گیا
اور بجلی کی اعلانیہ معطلی کا بھی ویسے کوئی جواز نہیں ہے۔
جب سے اس سال ماہِ رمضان کا آغاز ہوا ہے، تب سے چوتھی بار 2 کروڑ لوگوں کے اس شہر میں بجلی کے بدترین تعطل ہوئے ہیں۔ یہ چاروں تعطل ایک ہی ہفتے میں ہوئے، اور ہر دفعہ ہمیں بتایا گیا کہ "فیڈر ٹرپ کر گیا ہے۔"
|
اور اگر ایسی بات ہے، تو ممکنات صرف دو ہیں:
1: کے الیکٹرک مسئلے کی درستی کی اہلیت نہیں رکھتی۔
2: یا/اور سمجھتی ہے کہ کراچی کے رہائشی بے وقوف ہیں۔
ہر بریک ڈاؤن کے جواز میں کے الیکٹرک ان نادہندہ سرکاری اداروں کی فہرست پیش کرتی ہے، جن پر اس پرائیوٹ لمیٹڈ کے کروڑوں روپے واجب الادا ہیں۔ لیکن اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ ایک پرائیوٹ لمیٹڈ ہوتے ہوئے بھی اس کمپنی نے یہ نقصانات اتنے عرصے کے لیے برداشت کیے ہوں گے۔
|
|
کراچی کی مشکلات کا ایک بہتر حل یہ ہوسکتا ہے کہ بجلی کے شعبے میں کے الیکٹرک کی اجارہ داری کو ختم کر دیا جائے۔ ایک پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کا صارف ہونے کے تحت کون بِل کے بدلے خدمات کی بلاتعطل فراہمی نہیں چاہے گا؟ کراچی کے بجلی کے شعبے میں مقابلے کو فروغ دینے سے نہ صرف خدمات کی فراہمی میں بہتری آئے گی، بلکہ جو لوگ اپنی کمپنی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوں گے، وہ دوسری کمپنی کا انتخاب کر سکیں گے۔
18 جون 2015 کو ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والی خبر کا عکس |
ممبئی، جس کی 2013 تک آبادی 1 کروڑ 90 لاکھ کے قریب تھی، کئی معاملات میں کراچی جیسا ہی ہے۔ لیکن کراچی کے برعکس ممبئی میں بجلی کی پیداوار اور ترسیل ایک حکمتِ عملی کے تحت تین علحیدہ حصوں میں تقسیم کی گئی ہے: دی برہن ممبئی الیکٹریسٹی بورڈ (سرکاری)، ٹاٹا پاور (پرائیوٹ)، اور ریلائنس پاور (پرائیوٹ)۔
مزید پڑھیے: 'کے الیکٹرک انتظامیہ کو گرفتار کرنا پڑا تو کریں گے'
سرکاری و نجی شراکت داری سے پیدا ہونے والی تمام بجلی سرکاری گرڈ میں جاتی ہے، اور وہاں سے صارفین کو تقسیم کی جاتی ہے۔ (ریٹا ڈے، جو ہندوستان میں توانائی کے شعبے کی ماہر ہیں، اور اپنی فرم 'ڈویلپمنٹ مینیجمنٹ کنسلٹینسی' کی مالک ہیں، نے مجھے یہ تمام معلومات فراہم کیں۔)
شہر میں کئی بجلی کمپنیوں کی موجودگی سے ہر کمپنی اپنے اپنے علاقے میں سسٹم کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہے، جس سے بل زیادہ بہتر طریقے سے وصول کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کی طرح ہندوستان میں بھی بجلی کے نادہندگان کی بڑی تعداد سرکاری اداروں کی ہے، لیکن نجی تقسیم کار کمپنیاں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ سرکاری ادارے وقت پر ادائیگیاں کریں۔ اس طرح سسٹم کی مجموعی کارکردگی کئی گنا بہتر ہوچکی ہے۔
یہ ماڈل اتنا کامیاب ثابت ہوا ہے کہ ہندوستان اب بھوٹان جیسے ممالک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جہاں بجلی ضرورت سے زیادہ موجود ہے۔ اب یہ ہائیڈل اور تھرمل ذرائع سے بجلی پیدا بھی کر رہے ہیں اور نئے پلانٹس بھی لگاتے جا رہے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستانی اب بے حس ہوچکے ہیں، اور اپنے استحصال سے بے خبر ہیں۔ بلوں اور ٹیکسوں کی بروقت ادائیگی کے باوجود ہم جنریٹروں اور یو پی ایس کی خریداری اور مینٹیننس پر کافی خرچہ کرتے ہیں۔ بجائے اب اگلے بریک ڈاؤن کے انتظار کے، کیا وقت نہیں آ گیا کہ ہم اپنی بجلی خود پیدا کرنا شروع کر دیں؟
تبصرے (4) بند ہیں