قصہ گوئی: ایک دم توڑتی روایت
”ایک تھا بادشاہ- بادشاہ تو خود خدا ہے مگر یہ زمین کے ایک ٹکڑے کا بادشاہ تھا۔“
”ایک تھا بادشاہ، اور ایک تھی اس کی رانی۔“
”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں ایک شیر اور لومڑی رہتے تھے۔“
مندرجہ بالا جملے ہر کہانی سے پہلے میں کسی زمانے میں اپنے بڑوں سے سنتا تھا۔ گاؤں کے آنگن کے اوپر رات کو آسمان پر ستارے جگنوؤں کی مانند جھلملاتے تھے یا چاند بھی نیلے آکاش پر سے اپنی روشنی انڈیلتا رہتا تھا، تو امی یا کسی اور سے کہانی سننے کا موقع ضرور ملتا تھا۔
اس وقت روشنی کا اہم ذریعہ لالٹین ہوا کرتی تھی، جس کے گرد ہم سب بچے جمع ہو کر بیٹھتے تھے، مگر صرف ہم نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ کیڑے مکوڑے بھی اس لالٹین کی روشنی پر اکٹھے ہو جاتے تھے۔ اس زمانے میں گاؤں میں ایسے ہی بجلی نہیں ہوتی تھی جیسے آج شہروں میں ناپید ہو چکی یے۔ اس وقت ہم سب بچوں کو لگتا تھا کہ کہانی کا بادشاہ یا شہزادے ہم ہیں۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی جاتی تھی ہم اپنے بچگانہ ذہن سے تصور کے گھوڑے دوڑاتے تھے اور اپنے آپ کو اس کردار میں سمو دیتے تھے۔
جنوں، پریوں، اور بادشاہوں کی وہ کہانیاں ایک ایسی دنیا میں لے جاتی تھیں جہاں تھا تو سب کچھ خیالی مگر کہانی سنانے والے کے اندازِ بیاں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ سب کچھ حقیقی دنیا کا حصہ ہے۔
کچھ وقت قبل نہ صرف گھر کے افراد اپنے بچوں کو کہانیاں بڑے شوق سے سنایا کرتے تھے بلکہ گھر میں آنے والے مہمان سے یہ ضد کرتے تھے کہ وہ انہیں کوئی نہ کوئی کہانی ضرور سنائیں۔ پھر بچوں کی ٹولی ہونٹوں پر چپ کی مہر لگا کر کانوں کو کہانی سنانے والے کے طرف کر دیتی تھی۔ مگر اس وقت کہانی کی سب سے خراب بات یہ ہوا کرتی تھی کہ وہ جلدی ختم ہو جاتی تھی، پھر دوسری کہانی سنانے کے لیے ضد کی جاتی تھی۔ بچپن میں اور تو کچھ نہیں تھا مگر ہمارے پاس کہانیاں ضرور ہوتی تھیں۔ ان کے تصوراتی اور دیو مالائی کردار ذہن کے کسی کونے میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتے تھے۔ ان کہانیوں کو بیان کرنے کے لیے جو تشبیہات اور استعارے استعمال کیے جاتے تھے، وہ بھی کمال کے ہوتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ ہماری امی ہمیں بادشاہوں اور شہزادوں کے قصے سنایا کرتی تھیں، اور ابو یونانی دیومالائی کہانیاں سناتے تھے۔ مجھے وہ کہانیاں سن کر بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا شوق ہوا۔ اگر میں اپنے بڑوں سے کہانیاں نہ سنتا تو شاید میں بھی کبھی کہانیاں نہیں لکھ پاتا۔ ہم وہ کہانیاں سن کر بڑے ہوئے مگر اب جب میں موجودہ دور کے بچوں کو دیکھتا ہوں تو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ انہیں کوئی کہانی سنانے والا نہیں ہے، اور اسی وجہ سے بچوں میں بھی کہانیوں کو لے کر وہ دلچسپی نہیں ہے جو ہم میں ہوا کرتی تھی۔
پوری دنیا لوک ادب، قصوں، اور کہانیوں سے بھری ہوئی ہے اور تقریباً یہ قصے ایک جیسے ہیں، فرق صرف زبان کا ہے۔ مثلاً شیکسپیئر کا ڈرامہ King Lear؛ یہ قصہ میں نے پہلی بار اپنی ماں سے سنا تھا اور ڈرامہ بعد میں پڑھا تھا۔ اس میں ایک بادشاہ اپنی بیٹیوں سے یہ معلوم کرتا ہے کہ اسے اس کی بیٹیاں کتنا پیار کرتی ہیں۔ جس پر ایک بیٹی کہتی ہے کہ اس کا باپ اسے نمک جتنا پیارا ہے۔ جس کے بعد بادشاہ اپنی بیٹی کو محل سے نکال دیتا ہے۔
کنگ لیئر کی کہانی ایک لوک ادب کا قصہ ہے جو کہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا ہے، جسے جب شیکسپیئر نے لکھا تو اسے شاہکار بنا دیا، مگر وہی کہانی جب بچوں کو سنائی جاتی ہے تو بہت دلچسپ ہو جاتی ہے۔ ایسے مومل رانو، اکبر بیربل، اور سمندر کھارا کیسے ہوا جیسی کہانیاں بچپن میں سننے کو ملیں۔ مگر اب سوتے وقت کوئی کہانی ہمارے بچوں کا انتظار نہیں کرتی، کیونکہ والدین کے ہاتھ موبائل سنبھالنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
اگرچہ اب یہ قصے کہانیاں کتابی صورت میں موجود ہیں مگر پھر بھی وہ ہمارے گھروں میں موجود معصوم دلوں میں نہیں اترتیں۔ کہانیاں سنانے کے حوالے سے اس وقت جو تحقیق ہوئی ہے وہ بھی کافی دلچسپ ہے کہ بچوں کو کہانیاں سنانے سے ان کے ذہنوں میں کون سی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کو 9 سال تک کہانیاں سنانی چاہیئں، مگر 7 سالوں کی عمر میں والدین بہت بڑا اثر چھوڑتے ہیں۔ اس عمر میں کہانیاں بچے کو مطالعے کا شوق دلاتی ہیں“۔
ایک کہانی اوسطاً 16 منٹ کی ہوتی ہے، اس لیے تھوڑی سی منصوبہ بندی سے بچوں کو رات کے وقت کہانی سنائی جاسکتی ہے۔ یہ کہانیاں بچوں کو سونے سے پہلے رلیکس کرتی ہیں، ان کے مطالعے کی عادت کو بڑھاوا دیتی ہیں، اور بچوں اور والدین کے رشتے کو برقرار رکھتی ہیں"۔
پڑھیے: قصہ گوئی: سیکھنے اور سکھانے کا آزمودہ طریقہ
اس کے علاوہ کہانیاں سنانے سے بچوں کے اندر چھپی صلاحیتیں بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ ان کی دلچسپی کہاں ہے یہ بھی پتا چلتا ہے، اور بچے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جو بچے بھی ایسی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، وہ ان کہانیوں کے ذریعے بہت کچھ کر سکتے ہیں اور ان کی ذہنی صلاحیتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ بچوں کی کہانیاں دنیا کی ہر زبان میں موجود ہیں، اگر انہیں فراموش کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہم اپنی زبان میں ذخیرہ کیے ہوئے لوک ادب کو فراموش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ یہ کہانیاں اصل میں ناصحانہ انداز میں لکھی گئی ہیں اس لیے انہیں سبق آموز کہانیاں کہا جاتا ہے۔
جانوروں، پرندوں، جنوں، پریوں، اور شہزادوں کی یہ کہانیاں اب ہم بھولتے جا رہے ہیں۔ اب ہمارے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچا کہ ہم اپنے بچوں کو کہانیاں سنا کر ان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پرکھ سکیں۔ ہم ایک ایسی نسل کی تیاری میں مصروف عمل ہیں جو کہ ویڈیو گیم اور موبائل فون چلانے میں تو ماہر ہے مگر اسے یہ نہیں معلوم کہ کہانیاں کیا ہوتی ہیں۔ کیسے لکڑہارا جن کو مار کر شہزادی کو اس کی قید سے آزاد کرواتا ہے، کیسے پھر وہ شہزادہ بنتا ہے، اور کس طرح پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔
نوبیل انعام یافتہ چینی ناول نویس مو یان نے نوبیل انعام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ”میں ایک قصہ گو ہوں، اور قصہ گوئی نے ہی مجھے نوبیل انعام سے نوازا ہے“۔
اور پیٹر ہینڈکی کے الفاظ میں: ”اگر کوئی قوم اپنے کہانی سنانے والوں کو کھو دیتی ہے تو وہ اپنے بچپن کو بھی کھو دیتی ہے۔"
تبصرے (6) بند ہیں