ایک میل اونچی عمارت کے لئے شہر کی تلاش

دبئی: سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے مشہور عرب پتی شہزادہ الولید بن طلال نے کہا ہے کہ وہ ایک میل اونچی دنیا کی سب سے بلند عمارت بنانا چاہتے ہیں-
اس مقصد کیلئے وہ دنیا کے مختلف بڑے شہروں، جن میں نیو یارک، شنگھائی، لندن اور ماسکو بھی شامل ہیں، میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں-.
اس مقصد کے لئےانہوں نے دبئی کے مشہور تعمیراتی اور ریئل اسٹیٹ ڈویلپر عمار گروپ سے رابطہ کیا ہے تا کہ وہ اور ان کی اپنی سرمایہ کار کمپنی کنگڈم ہولڈنگ کے درمیان اس منصوبے کے حوالے سے شراکت قائم کی جا سکے-
انہوں نے رائٹرز سے پیر کی رات ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا "اس وقت ہم اس ایک میل لمبی عمارت کو بنانے کے حوالے سے مخلف نکات اور امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں- ہمیں اچھے شراکت داروں کی بھی ضرورت ہے- اسی لئے میں نے عمار اور اس کے چیف جناب الابار کو ہمارے ساتھ مل کر کام کرنے کی پیش کش کی ہے تا کہ ہم اس شاہکار ایک میل لمبے ٹاور کو دنیا میں کسی جگہ تعمیر کر سکیں-"
الولید نے یہ نہیں بتایا کہ اس منصوبے کے لئے سرمایہ کس طرح آئے گا یا یہ کہ کب تک یہ مکمّل ہو گا- انہوں نے کہا کہ اس کی تعمیر کے لئے اخراجات کا تعین ابھی تک نہیں کیا گیا-
ان کا یہ بڑا منصوبہ خلیجی ملکوں کی بہت سی کمپنیوں کے اس اعتماد کی عکّاسی کرتا ہے جو کہ اب سرمایہ کاری کے لئے دوسری مارکیٹس کی طرف دیکھ رہی ہیں- ان کے اس اعتماد کو ان کے اپنے ملکوں کی بہتر معاشی حالات اور اسثاثہ جات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بھی تقویت ملی ہے-
الولید نے مزید کہا کہ "میں اب دنیا کے مختلف اہم شہروں جیسے شنگھائی، ماسکو، نیو یارک، لندن اور مختلف اہم خلیجی ملکوں کے شہروں کو دعوت دے رہا ہوں کہ وہ آئیں اور اپنی آفرز دیں-"
انہوں نے کہا کہ جو ملک چاہتے ہیں کہ ان کے شہر میں دنیا کی بلند ترین عمارت تعمیر ہو، انھیں پرکشش مالیاتی شرائط، ٹیکسوں میں چھوٹ اور حکومتی تعاوں کی یقین دہانی کرانا ہو گی-
اس حوالے سے تبصرے کے لئے عمار کے الابار سے فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا- عمار نے پچھلے سال، دبئی اور قریبی ملکوں میں کئی بڑے منصوبوں پر کام شروع کیا ہے-
تعمیراتی صنعت سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک میل لمبی عمارت کی تعمیر کے لئے ڈیزائن اور ٹیکنیکل معاملات میں خاصے چلینجز کا سامنا ہو گا- جیسے کہ اتنی زیادہ اونچائی تک کس طرح پانی پہنچایا جائے گا اور کیا یہ ممکن بھی ہو گا؟
اگر یہ بلڈنگ بن گئی تو یہ دنیا کی موجودہ بلند ترین عمارت، دبئی میں واقع برج خلیفہ جو کہ 828 میٹر بلند ہے، سے ہی نہیں بلکہ سعودی عرب کے شہر جدّہ میں زیر تعمیر ایک کلومیٹر بلند کنگڈم ٹاور، سے بھی اونچی ہو گی-
کنگڈم ٹاور کی تعمیر کے لئے اخراجات کا تخمینہ تقریباً 2.1 بلین ڈالر لگایا گیا ہے اور یہ ایک ہوٹل، ریٹیل اور لگژری رہائشی پروجیکٹ کا حصہ ہے- اس کی تعمیر کا آغاز موجودہ سال کے آخر میں کیا جائے گا اور 2017 تک اس کی تعمیر مکمل ہو جائے گی- یہ بات کنگڈم ہولڈنگ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر طلال ال میمن نے بتائی-
طلال نے مزید بتایا کہ "ستاون ملین اسکوائر فیٹ پر مشتمل اس پروجیکٹ کا تقریباً 30 فیصد حصہ ہوٹلوں کے لئے مخصوص ہو گا- بقیہ حصہ ریٹیل اور پریمیم رہائشی پروجیکٹس کے درمیان برابر تقسیم کیا جائے گا-"
کنگڈم ہولڈنگ جو کہ 2007 سے ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی بنی ہے، کی مارکیٹ ویلیو تقریبن ساڑھے اٹھارہ بلین ڈالر بتائی جاتی ہےاور اس کا شمار مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی سرمایہ کار کمپنیوں میں ہوتا ہے- سٹی گروپ، نیوز کورپ اور ٹویٹر جیسی بڑی کمپنیوں کے حصص اور دنیا بھر میں پھیلے بہت سے لگژری ہوٹل، اس کے اثاثوں میں شامل ہیں-