• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

سزا نہیں، اصلاح

شائع July 11, 2015 اپ ڈیٹ July 13, 2015
چھوٹے جرائم میں ملوث لوگوں سے جیلیں بھرنے کے بجائے سڑکیں صاف کروائی جا سکتی ہیں، یا انہیں رضاکار تعینات کیا جا سکتا ہے۔ — اے ایف پی/فائل
چھوٹے جرائم میں ملوث لوگوں سے جیلیں بھرنے کے بجائے سڑکیں صاف کروائی جا سکتی ہیں، یا انہیں رضاکار تعینات کیا جا سکتا ہے۔ — اے ایف پی/فائل

چھٹی صدی قبلِ مسیح میں یونانی فلسفی ایناکارسز نے سولون کے ساتھ ایک تحریری قانونی نظام کے امکانات پر بحث کرتے ہوئے کہا تھا: "قانون مکڑی کے جالوں کی طرح ہوتے ہیں؛ یہ صرف غریبوں اور کمزوروں کو پکڑیں گے، مگر امیر اور طاقتور لوگ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر سکتے ہیں۔"

ایسا ہی تھا، اور ایسا ہی ہے۔

کس نے سوچا تھا کہ دنیا میں ایسے بھی ملک ہوں گے، جو ڈھائی ہزار سال بعد بھی اسی مسئلے میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔

کسی بھی دن دوپہر کے وقت پاکستان کے کسی بھی شہر میں مجسٹریٹ کے کورٹ میں داخل ہوں، اور آپ کو درجنوں لوگ زنجیروں میں جکڑے ہوئے نظر آئیں گے، جو کورٹ کی جانب سے نمٹائے جانے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔

ان کا جرم وہی ہے جو روزانہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے الگ تھلگ کونوں میں اور کئی فارم ہاؤسز کے اندر ہوتا ہے، یعنی نشے کا استعمال۔

کچھ لوگوں 3 ماہ کے لیے جیل بھیجا جائے گا، کچھ کو 5، اور کچھ کو 7 ماہ سے بھی زیادہ عرصے کے لیے۔ کبھی کبھی ان میں سے چند پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، جو چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتا، اور جسے نہ چکا پانے کی بناء پر جیل میں ان کا دورانیہ مزید بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ لوگ ریاستی خزانے پر بوجھ بنتے ہیں، اور ان کے لیے وقف بیرکوں میں کئی انتہاپسندوں کو رکھا جا سکتا ہے۔

ٹالسٹائی نے لکھا تھا: "تمام خوشحال گھرانے ایک سے ہوتے ہیں، جبکہ تمام بدحال گھرانے الگ الگ طرح سے بدحال ہوتے ہیں۔" اس کے برعکس میں جب بھی ان بدحال قیدیوں کو دیکھتا ہوں، تو مجھے ان میں بہت سی چیزیں ایک جیسی لگتی ہیں۔ غربت، ٹوٹ پھوٹ کے شکار خاندان، واجبی یا صفر تعلیم، اور شدید پریشانی۔ بہت کم لوگ ہی ان زنجیروں سے خود کو چھڑا پاتے ہیں۔ دوسرے لوگ سکون چاہتے ہیں، پھر چاہے وہ نشے کی عادت میں ہی ملے۔

ان کے بیانات ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، ان کے حالات ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، اور ان کی سزا زیادہ ہوتی ہے۔ زندگی کے 7 ماہ سلاخوں کے پیچھے صرف ایک ایسا نشہ استعمال کرنے کے لیے جو اب دنیا کے زیادہ تر ممالک میں قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔

نہیں، میں انسدادِ منشیات ایکٹ 1997 کی شق 9A کے تحت منشیات رکھنے کے جرم میں 2 سال تک کی قید کے خلاف نہیں ہوں۔ میں صرف ہمارے نظامِ انصاف کے دوغلے پن کے خلاف ہوں، جس میں غریبوں کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سزا ملتی ہے، جبکہ امیر لوگ قتل اور فراڈ کر کے بھی بچ نکلتے ہیں۔

اس طرح کے حالات میں عدل و انصاف کی باتیں بے مقصد، اور ترقی کی بحثیں بے فائدہ اور ظاہری ہیں۔

پاکستان کے حالات پر اس سے زیادہ برا تبصرہ کوئی نہیں ہوسکتا، جو مجھ سے ایک حاضرِ سروس ایڈیشنل آئی جی پولیس نے دو سال قبل کیا تھا: "میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ مارگلہ روڈ اسلام آباد میں کون کون سے گھروں میں شراب کا کاروبار ہوتا ہے۔ لیکن اگر میں نے چھاپہ مارا، تو مجھے فوراً اعلیٰ حکام کے فون آنا شروع ہوجائیں گے کہ میں ان کے پسندیدہ شخصیات سے دور رہوں۔ اگر میں نے ان کی بات نہیں سنی تو میرا تبادلہ کردیا جائے گا، یا او ایس ڈی بنا دیا جائے گا۔ نہ جھکنے والے لوگوں کو سسٹم باہر نکال دیتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ سسٹم میں رہتے ہوئے کچھ کیا جائے، بجائے اس کے کہ باہر نکال دیے جانے پر کچھ بھی نہ کیا جائے۔"

تو پھر اگر نظام کی مکمل تبدیلی صرف ایک دیوانے کا خواب ہے، جسے صرف خیالوں کی دنیا میں رہنے والے لوگ ہی سچ سمجھتے ہیں، تو کیا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے کہ اس ملک کے غریبوں کے لیے نرم سزاؤں کا مطالبہ کریں؟

کیوں نہ پھر مغربی ممالک کی طرح ہم بھی کمیونٹی سروس کے قوانین متعارف کروائیں؟ چھوٹے جرائم میں ملوث لوگوں سے سڑکیں صاف کروائی جا سکتی ہیں، ان سے بچوں کو منشیات کے خطرات سے آگاہ کرنے کا کام لیا جا سکتا ہے، یا پھر حکومت کے پروگرامز میں رضاکار کے طور پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔

اس سے دو چیزیں ہوں گی: پہلا یہ کہ ان افراد کو ہمارے جیلوں، جو جرائم کی فیکٹریوں میں تبدیل ہوچکے ہیں، میں رکھے بغیر اصلاح کی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ انہیں جیلوں میں بند رکھنے پر اٹھنے والے اخراجات بھی کم ہو سکیں گے۔

ہمارا نظامِ انصاف مکمل طور پر سزا اور خوف کے گرد گھومتا ہے۔ اب اسے اصلاح کے گرد گھومنا چاہیے، خاص طور پر تب جب سزا تمام لوگوں کے لیے برابر نہیں ہوتی۔

انگلش میں پڑھیں۔

بدر اقبال چوہدری

بدر اقبال چوہدری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے انگلینڈ کی بی پی پی یونیورسٹی سے قانون کی، اور ویلز کی کارڈف یونیورسٹی سے الیکٹرانکس اور کمیونیکشن کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور میگزینز میں لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

Muhammad Ayub Khan Jul 11, 2015 07:26pm
jail bharney sey in key rishtadaar aor milney waley jail hukkam ki mustaqil amdaniy ka zariya bantey heyN-----sarhkeyN saaf karwaiy gaiyein to yeh log bojh ban jayeN gey----Jail hukkam ki aamdaniy par laat maar d, jaye giy---aor ulta in qeydiyoN ko kuch muavza deyna parh jaye ga---- na bhai na--- humeyN apni aamdaniy ziyada azeez hey
ramna iftikhar Jul 12, 2015 05:53am
You are right, but who will listen it. They won't even bother to think about it.
ramna iftikhar Jul 12, 2015 05:55am
such sort of laws can really bring a positive change.
عائشہ بخش Jul 12, 2015 06:19am
آپ کی رائے اور تجویر تو اچھی ہے ۔ لیکن پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ ۔۔۔ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی فرصت کسی کو میسر نہیں ہے ۔ ۔۔۔ہر اعلی حکومتی اہکار کے سوٹ کی جیبں زیادہ ہیں۔ ان کا زیادہ وقت تو ان جیبوں کو بھرنے میں گزر جاتا ہے ۔ یقین کریں۔ خود ۔۔۔اپنے لئے وقت نکلنا ان کے مشکل ہے ۔ ۔۔۔ تو دوسروں کا وہ کسی طرح ۔۔۔ سوچ ۔۔۔ سکتے ہیں ؟
نجیب احمد سنگھیڑہ Jul 12, 2015 03:28pm
آئی تھنک سزا کی بجائے اصلاح وہاں پر کامیاب ہوتی ہے جہاں کا معاشرہ حساس ہو اور سوچنے اور سمجھنے کی خوبی رکھتا ہو۔ پاکستان ایسے معاشروں میں ابھی شامل نہیں ہوا اور شاید تب تک کوئی بھی معاشرہ حساس معاشرہ کی شکل اختیار نہیں کر سکتا جب تک مذہب کو سرکاری سرپرستی ملتی رہے گی۔ حساسیت کا تعلق فکر اور فلسفہ کے ساتھ ہوتا ہے جب کہ عمومآ مذہب کو ایمان و اعتقاد سمجھا جاتا ہے یا سمجھنے کا تاثر پھیلا دیا گیا ہے اور ایمان و اعتقاد جہاں پر ہو گا وہاں پر فکر و فلسفہ کی جگہ پیدا نہیں ہو گی۔ ہمارے معاشرہ میں جرائم کی اگر سزا نہ ملے تو مزید جرائم کی ترغیب ملتی ہے اور سزا نہ ملنا یا کم ملنا کو اعزاز سمجھتے ہوئے جرائم پیشہ لوگوں میں مزید جرائم کرنے کی ہمت آ جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی غلطیاں بڑی غلطیوں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں کے پیش نظر چھوٹے جرائم کو سزا کی بجائے اصلاح کی طرف توجہ دینا بھی درست نہیں لگتا۔ ضرورت صرف قانون کے یکساں استعمال کی ہے، قانون کو ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے سیدھے رستے پر پانا چاہیے چاہے غریب ہو یا امیر، سیاستدان ہو یا وکیل، رپورٹر ہو یا اینکر ۔۔۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024