• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

'سیاسی بیان'

شائع July 9, 2015
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان — اے ایف پی
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان — اے ایف پی

35 پنکچر ایک ایسا دو لفظی جملہ ہے کہ جسے لے کر گزشتہ کافی عرصے سے پاکستان میں ماتم ہوتا رہا اور اب بھی جاری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ٹاک شوز اور پریس کانفرنس سمیت ایسا کوئی فورم نہیں چھوڑا جہاں اس جملے کا بہیمانہ استعمال نہ کیا ہو۔ تحریک انصاف کی ٹوئٹر بریگیڈ نے بھی اس جملے کا پاگل پن کی حد تک استعمال کیا۔ شاید آپ نے زندگی میں پنکچر لفظ اتنی بار نہ سنا ہو جتنا 2013 کے بعد سے سنا ہوگا۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حالیہ بیان، کہ "35 پنکچر والا بیان سیاسی بیان تھا" کے بعد تو جیسے کوئی خلائی انکشاف ہو گیا ہو۔ اس بیان کو لے کر ہمارے ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے افراد بالعموم اور تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین نے بالخصوص اس بیان پر اتنے جنوں کے ساتھ تبصرے کرنا شروع کر دیے ہیں جیسے یہ پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ ہو۔

اس وقت میڈیا سمیت تمام فورمز پر سب سے زیادہ تبصرہ اسی جملے پر ہو رہا ہے اور اس ایک جملے کو لے کر صف ماتم بچھا رکھی ہے۔ ایسے تمام تر افراد اور ماتم بریگیڈ سے گزارش ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے مشہوری کے لیے آخر کیا کیا سیاسی بیان نہیں دیے، اور کیا کیا حربے استعمال نہیں کیے؟ انتخابی مہم کے دوران کیا کیا وعدے نہیں کیے جاتے؟ کیا تمام وعدوں پر من و عن عمل ہوتا ہے؟ من و عن عمل چھوڑیں، کیا %25 بھی عمل ہوتا ہے؟ جواب آپ خود ہی بہتر جانتے ہیں۔

پڑھیے: '35پنکچر ایک سیاسی بات تھی'

پاکستان میں سیاسی بیانات کے ذریعے ہمیشہ ہی عوام کو بیوقوف ہی بنایا گیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، کبھی پیرس تو کبھی ایشین ٹائیگر بنانے کی باتیں ہوتی ہیں، 6 ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ تو اتنی بار کیا گیا، کہ اس کے سامنے 35 پنکچر کی تکرار بھی چھوٹی لگتی ہے۔ تو ہم یہ سب وعدے اور دعوے کیوں بھول گئے ہیں؟

پاکستان میں آج تک عوام کے ساتھ صرف وعدے ہی ہوئے ہیں، وہ بھی "سیاسی وعدے" جن کا وجود صرف انتخابات تک ہوتا ہے، اور اس کے بعد وعدے اور وعدے کرنے والے ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے "گدھے کے سر سے سینگ"، اور پھر یہ اگلے انتخابات میں نمودار ہوتے ہیں اور ایک نیا لولی پاپ لاتے ہیں۔

چونکہ یہ پروفیشنل سیاستدان ہیں اس لیے اپنا اپنا سیاسی چورن بیچنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی صوبائیت اور قوم پرستی کی "پھکی" بیچتے ہیں جبکہ کچھ اعلیٰ درجے کے ہیں جو معیشت کی گولی، کرپشن کے کیپسول، دھاندلی اور بے ایمانی کا شربت، اور غیرت کے ٹیکوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، پھر چاہے یہ غیرت مذہبی ہو، قومی یا برادری یا پھر لسانی اور فرقہ وارانہ۔ ہر کوئی دوسرے کو چور اور خود کو شاہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں اخلاقیات سمیت تمام دیواریں پھلانگی جاتی ہیں۔ انتخابات کے دوسرے دن ایک دوسرے پر اخلاقیات سے گرے ہوئے الزامات لگانے والے آپس میں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور کارکن گتھم گتھا۔

نچلے درجے کے کارکنان اپنی سب توانائیاں اپنے سیاسی قائدین کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے میں خرچ کرتے ہیں اور قائدین عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے مسائل میں مصروف رہتے ہیں۔ ملکی معیشت کے بجائے انہیں دن رات فکر کھائے جاتی ہے کہ کیسے اپنی معیشت کو مستحکم سے مستحکم ترین کیا جائے۔

مزید پڑھیے: 35 پنکچروں کی داستان

آج کل جو حضرات تنقید کر رہے ہیں کہ "سیاسی بیان" جھوٹا ہوتا ہے وہ ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ وہ لوگ سالوں سے جو سیاسی بیان دیتے آئے ہیں ان میں کتنی صداقت رہی ہے؟ جلسے جلوسوں اور انتخابی مہم میں کیے گئے کتنے سیاسی وعدے پورے کیے، اور کتنے وعدوں کو بعد میں سیاسی بیان قرار دے کر ان سے دامن چھڑایا گیا؟

جو سیاسی حضرات اس وقت سیاسی بیان کی قدر و قیمت بتا رہے ہیں ان میں اکثریت انہی کی ہے جو سالوں سے انہی جھوٹے سیاسی بیانات سے عوام کو بیوقوف بناتے آئے ہیں اور برسر اقتدار آ کر عوام کا خون چوستے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے نزدیک تو سارے چور اچکے، لٹیرے اور بے ایمان ہیں اور اپنی دانست میں وہ ملک کی سب سے بڑی، پڑھے لکھوں اور نوجوانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ خان صاحب چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ میں اپنی قوم سے جھوٹ نہیں بولوں گا، عوام مجھ پر بھروسہ کرے۔ لیکن ہوا کیا؟ وہی "کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا"۔ آخر کار تحریک انصاف بھی اسی روایتی سیاست کی بہتی ہوئی گنگا میں ہاتھ دھو بیٹھی اور جس بیان کو لے کر 126 دن کا طویل دھرنا دیا گیا، ملک کو 547 ارب روپے کا نقصان پہنچا، تحریک انصاف کے کارکنان انصاف کے لیے خان صاحب کے شانہ بشانہ کھڑے رہے، طرح طرح کے طعنے برداشت کیے، اس کے بارے میں کہا گیا کہ: "یہ تو محض ایک سیاسی بیان تھا۔"

جانیے: "نجم سیٹھی بہت 'چالاک' انسان ہیں"

126 دن تک ایک سیاسی بیان پر ملک کے نظام کو ہائی جیک کرنے کی سزا بھی عمران خان کو خود ہی تجویز کرنی چاہیے کیونکہ اگر کسی اور نے سزا تجویز کی تو ایک اور "سیاسی بیان" آ جائے گا کہ یہ تو دھاندلی ہے۔

عمران خان کے اپنے اس بیان کو سیاسی کہنے کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ 126 دن کنٹینر پر کھڑے ہو کر جو جو الزامات لگائے گئے یا اب تک جو الزامات حکومت پر لگائے جا رہے ہیں ان میں کتنی سچائی ہے؟ کیا وہ بھی "سیاسی بیان" ہیں جن سے جماعت مستقبل میں دستبردار ہو جائے گی؟

تحریک انصاف نے بدعنوانی، انصاف، اور صاف سیاست کا جو نعرہ لگایا تھا، اس نعرے نے اسے عوام میں مقبول کر دیا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ انہیں 2013 کے عام انتخابات میں توقع سے زیادہ پذیرائی ملی تھی اور پاکستان کے پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے نے تحریک انصاف کو دل و جان سے ووٹ دیے تھے۔ لیکن اس کے بعد سے ہونے والے واقعات سے تحریک انصاف کی مقبولیت میں مسلسل کمی واقع ہوئی جس کی وجوہات میں عمران خان کا اپنے بیان سے "یو ٹرن"، کرپٹ اور بدعنوان لوگوں کی پشت پناہی، جبکہ تابوت میں آخری کیل 35 پنکچر کو "سیاسی بیان" کہنا ثابت ہوا ہے۔

پڑھیے: '35 پنکچر سے متعلق بیان پی ٹی آئی کے مؤقف کو متاثر نہیں کرے گا'

اس بیان کے بعد بہت سارے تحریک انصاف کے دوستوں کا کہنا ہے کہ "ہم نے تو عمران خان کو سچا سمجھا اور اپنی توانائیاں اس کے ہر بیان کو سچا ثابت کرنے میں خرچ کیں، مگر خان صاحب نے بھی روایتی سیاست کرتے ہوئے ہمیں خوار کروا دیا۔ اب لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ بھئی! 35 پنکچر کا کیا ہوا تمہاری تو ٹیوب ہی پھٹ گئی۔"

تحریک انصاف کے الیکشن ٹربیونل کے جہانگیر ترین اور دیگر پر بدعنوانی کے فیصلے پر ٹربیونل کے خاتمے کے بیان سے لے کر اسٹیٹس کو کے خاتمے کے بیان کے بعد خود ہیلی کاپٹر اور لمبے لمبے پروٹوکول میں گھومنے سمیت دیگر "یو ٹرنز" نے جہاں تحریک انصاف کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، وہیں دیگر جماعتوں کو تحریک انصاف پر تنقید کرنے کا موقع ملا۔ 35 پنکچر کو سیاسی بیان قرار دینے پر میں تحریک انصاف کے کارکنان سے معذرت کے ساتھ ایک سوال کروں گا کہ کیا "نئے پاکستان میں "سیاسی بیان" صرف جھوٹ سمجھا جائے، یا اس میں بھی سیاسی بیانات کی گنجائش نکل آئے گی؟"

تنویر آرائیں

لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرtanvirarain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

ابوبکر بلوچ Jul 09, 2015 02:34pm
بہت ہی عمدہ لکھا ہے۔۔۔۔
Toufique Jul 09, 2015 02:38pm
tanvir g aap nay itna bataya yeh bhi bta den awam ko k kis ko vote kren kis pay barosa karen kon sacha hay ya phr sari umar andhero may rahay......
Faizan Jul 09, 2015 04:29pm
ager siyasi bayan he dene thy to phr apni intekhabi muhim me se "Naya Pakistan" ka lafz hata dijiye please...
عدنان Jul 09, 2015 05:54pm
جو جرائم غیر ارادی طور پر کیئے جائیں ان کا ثبوت ملنا نسبتا آسان ہوتا ہے۔ 35 پنکچر جیسے جرائم باقاعدہ تحقیق کر کے کیئے جاتے ہیں۔ تاریخ بڑی ظالم ہے ، یہ نہیں چھوڑتی کسی بھی طرم خان کو ایک سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ نجم سیٹھی کو کن "خدمات" کے عوض پی سی بی کا چئیرمین بنا یا گیا تھا جو پاکستان میں وزیر اعظم کے بعد دوسرا منفعت بخش عہدہ ہے۔
Muhammad Ayub Khan Jul 09, 2015 08:57pm
@Faizan
انجم سلطان شہباز Jul 10, 2015 10:03am
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024