وزیرِ اعلیٰ سندھ کے الزامات
سندھ کے وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ اچانک غصہ ہوگئے ہیں۔ ان کے غصے کا نشانہ وفاقی ادارہء تحقیقات (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) ہیں، دونوں ہی وفاقی ادارے حکومتِ سندھ کے مطابق صوبائی حکام کے خلاف سندھ حکومت کی مرضی کے بغیر چھاپے مار رہے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے یہاں تک کہا ہے کہ وفاقی قانون سازی کے تحت ایف آئی اے کو اضافی اختیارات تفویض کرنے کا معاملہ اعلیٰ عدالتوں میں اٹھایا جائے گا۔
بھلے ہی وفاق کا مؤقف ہے کہ 90 دن کے لیے مشکوک افراد کو زیرِ حراست رکھنے کا ایف آئی اے کا اختیار صرف سندھ کے بجائے تمام صوبوں کے لیے ہے، لیکن قائم علی شاہ کے مطابق ان کی حکومت کو سزا دی جا رہی ہے۔
اس میں حیرت کی بات نہیں کہ ایم کیو ایم ان کی حمایت کر رہی ہے، اور ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہے۔ مرکز اور سندھ کے درمیان اس بڑھتے تنازع میں دونوں ہی فریقوں کی باتوں میں کچھ کچھ سچائی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ وفاقی حکومت کی تمام صفائیوں کے باوجود ایف آئی اے اور نیب کے حالیہ چھاپے سندھ کے ساتھ مخصوص ہیں۔
اس طرح کے ایکشن دیگر صوبوں میں کہاں ہیں؟ کیا بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں صوبائی اداروں پر چھاپے مارے گئے ہیں؟ کیا پنجاب میں صوبائی حکام کی کرپشن اور مالیاتی فراڈ کے خلاف تحقیقات میں تیزی آئی ہے؟
میڈیا کی شہہ سرخیوں میں اس بات کا جواب موجود ہے: وفاقی تفتیشی ادارے گذشتہ چند ماہ سے سندھ میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک آپریشن صرف کراچی میں جاری ہے، اور فوجی قیادت نے سندھ میں سیاسی قیادت کے بارے میں بہت تلخ بیانات بھی جاری کیے ہیں۔ ان تمام باتوں کو مدِ نظر رکھیں تو سندھ حکومت کی بوکھلاہٹ کی وجوہات واضح ہوجاتی ہیں۔
بھلے ہی وفاقی حکومت یہ باور کروانے کی کوشش کر رہی ہے کہ سندھ آپریشن کے تمام رخ مکمل طور پر مسلم لیگ ن کے تحت ہو رہے ہیں، لیکن پھر بھی اس بات کے واضح اور پریشان کن اشارے موجود ہیں کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ پسِ پردہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر ہو رہا ہے۔
سندھ حکومت کا صرف وفاقی حکومت نہیں بلکہ فوج کے ساتھ بھی کشمکش میں ہونا ایک بظاہر جمہوری ڈھانچے کے لیے نقصاندہ ہے۔
لیکن پھر بھی سندھ حکومت کو کسی بھی حلقے سے ہمدردی ملنے کی کم ہی توقع ہے کیونکہ وہ اپنے طور طریقے چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ صوبے میں بدترین حکمرانی اور کرپشن کا راج ہے، جمہوریت کے سخت ترین حامی بھی اس پر سوال نہیں اٹھاتے۔
سندھ حکومت نے کرپشن کو ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے، آزاد مبصرین اس پر بھی سوال نہیں اٹھاتے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ صوبہ آگے بڑھ کر اقدامات کر سکتا ہے، اور کرپشن سے لڑنے اور خراب حکمرانی درست کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
سندھ حکومت اگر سندھ کو درست کرنے کی کوشش نہیں کرے گی تو پھر اس میں حیرانی کی کیا بات ہے اگر وفاق خود یہ ذمہ داری نبھائے؟
یہ مضمون ڈان اخبار میں 8 جولائی 2015 کو شائع ہوا۔