بینظیر قتل کیس: ایک اور گواہ بیان سے مکر گیا
اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی ) کی مرحوم چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو قتل کیس کا ایک اور عینی شاہد انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جرح کے دوران اپنے پہلے بیان سے مکر گیا۔
اس سے قبل نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل (این سی ایم سی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل ریٹائرڈ بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ اور سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) یاسین فاروق نے استغاثہ کی جانب سے خود سے منسوب بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج رائے محمد ایوب مارتھ نے پیرکو اڈیالہ جیل میں بینظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت کی، جہاں بینظیر بھٹو کے ایک اہم سیکیورٹی آفیشل ریٹائرڈ سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) میجر امتیاز نے اپنے پہلا بیان واپس لے لیا۔
اس سے قبل میجر امتیاز سے منسوب بیان میں کہا گیا تھا کہ بینظیر بھٹو کا قتل لیاقت باغ میں نامناسب سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے ہوا، جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن نے اپنی آخری تقریر کی تھی، میجر امتیاز نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ اس وقت کے سٹی پولیس آفیسر (سی پی او) سید سعود عزیز اور دیگر اعلیٰ افسران اُس دوران ڈیوٹی پر موجود نہیں تھے، جب بینظیر بھٹو پر حملہ کیا گیا۔
تاہم پیر کو امتیاز نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کو بتایا کہ 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ کے اطراف بینظیر بھٹو کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی، جب انھیں عوامی جلسے کے بعد گولی اور بم دھماکے کے ذریعے قتل کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سی پی او سعود عزیز کے ساتھ ساتھ تمام پولیس افسران اُس وقت بینظیر بھٹو کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے ڈیوٹی پرموجود تھے۔
امتیاز نے عدالت کے روبرو مزید کہا، "اگر بینظیر بھٹو اپنی گاڑی کی سن روف سے باہر نہ نکلتیں تو وہ قتل نہ ہوتیں"۔
سماعت کے بعد انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج رائے محمد ایوب مارٹھ نے مذکورہ کیس کی سماعت رواں ماہ 8 جولائی تک ملتوی کردی۔
تبصرے (2) بند ہیں