• KHI: Zuhr 12:34pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:05pm Asr 4:37pm
  • ISB: Zuhr 12:10pm Asr 4:43pm
  • KHI: Zuhr 12:34pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:05pm Asr 4:37pm
  • ISB: Zuhr 12:10pm Asr 4:43pm

سیاسی تبدیلیاں اور پیپلز پارٹی کی بے چینی

شائع July 6, 2015
سیاسی موسم میں تبدیلی کا سامنا سب سے زیادہ سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور کراچی کی اکثریتی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو کرنا پڑ رہا ہے۔
سیاسی موسم میں تبدیلی کا سامنا سب سے زیادہ سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور کراچی کی اکثریتی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو کرنا پڑ رہا ہے۔

ملک میں ایک طرف اگر گرمی سارے ریکارڈ توڑ رہی ہے تو دوسری جانب سیاسی میدان میں بھی کچھ جماعتوں پر کڑکتی بجلیاں گر رہی ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ جماعتیں سیاسی و خفیہ عناصر کی تبدیلیوں کی زد میں ہیں اور آئے روز غلط سیاسی فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔

سیاسی نگری کے موسمی تغیرات کا سامنا سب سے زیادہ سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور کراچی کی اکثریتی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو کرنا پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے ستارے مسلسل گردش میں ہیں۔

صوبہء سندھ میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ویسے تو بنا کسی وقفے کے اپنا دوسرا دورِ اقتدار سنبھالے بیٹھے ہیں، مگر اس بار وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہ ہونے کے سبب قائم علی شاہ سیاسی ہچکچولے کھا رہے ہیں اور ایسی صورتحال میں سائیں قائم علی شاہ کے سائیں سابق صدر آصف علی زرداری بھی ڈولتے اور ڈگمگاتے لگ رہے ہیں۔

کراچی میں جاری آپریشن بھی اب اس نہج پر آن پہنچا ہے جہاں سندھ رینجرز کا ٹارگٹ جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے والے سیاستدان اور سرکاری عہدوں پر فائز افسران ہیں، جن کی پکڑ کے لیے گذشتہ دنوں سندھ رینجرز کی جانب سے مختلف سرکاری دفاتر پر چھاپے مارے گئے اور سندھ کے سیاستدانوں سے بیرونِ ملک روانگی سے قبل پوچھ گچھ کی گئی۔

ایک طرف تو پیپلز پارٹی پر سندھ میں مبینہ طور پر جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور دوسری جانب میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق لیاری گینگ سے تعلق رکھنے والے عزیر بلوچ نے بھی دورانِ حراست گنگنانا شروع کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق عزیر بلوچ نے دورانِ حراست تسلیم کیا ہے کہ اس نے محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے دو گواہوں، جن میں سے ایک خالد شہنشاہ تھا، کو قتل کیا تھا۔ اس کے علاوہ عزیر بلوچ نے ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان میں یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ دو وزراء سے ہدایات لیتا تھا۔

ایسے حالات میں پاکستان پیپلز پارٹی سیاسی پشیمانی کا اظہار بذریعہ سابق صدر کی تقریر کر چکی ہے، جس میں سابق صدر نے پاک فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

زرداری صاحب کی بارودی تقریر کے بعد بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی خاطر خواہ ایکشن نہیں لیا گیا، مگر سابق صدر کی بہن فریال تالپور سمیت سندھ سے تعلق رکھنے والے کچھ رہنما آوازِ وقت کو سمجھتے ہوئے دبئی روانہ ہوگئے ہیں۔

جہاں تک معاملہ عزیر بلوچ کے دورانِ حراست انکشافات کا ہے تو اس بارے میں پیپلز پارٹی کو پشیمان ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ عزیر بلوچ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی نوعیت ان الزامات سے زیادہ نہیں جو کہ دورانِ حراست اور پھانسی چڑھنے سے پہلے صولت مرزا نے ایم کیو ایم پر لگائے تھے۔ ان الزامات کے بعد بھی صولت مرزا کو تو پھانسی ہوگئی اور جن پر صولت مرزا نے الزامات لگائے تھے، وہ آج بھی پیپلز پارٹی کے اقتدار والے صوبے میں پارٹی کے مضبوط اتحادی ہیں۔

پیپلز پارٹی کی پشیمانی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نواسہ بھٹو بلاول بھٹو زرداری اپنی تمام تر مصروفیات چھوڑ کر پاکستان آن پہنچے ہیں اور آئے روز پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کی میٹنگز کر رہے ہیں۔

سونے پہ سہاگہ یہ ہوا ہے کہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ کے تمام عہدیداران ماسوائے صوبائی صدر پیپلز پارٹی منظور وٹو پاکستان تحریک انصاف کی کشتی میں سوار ہوگئے ہیں، جس کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کی ڈوبتی کشتی کم پانی میں بھی جھولنے لگی ہے، اور جس کو سنبھالنے کے غرض سے فرزندِ بینظیر اب پنجاب پر فوکس کرنے کا ارادہ کر بیٹھے ہیں۔

اوکاڑہ کے علاوہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزاری خاندان کے سابق قائم مقام وزیر اعظم بلخ شیر مزاری اور پیپلز پارٹی دور میں روجھان سے رکنِ قومی اسمبلی دوست مزاری نے بھی عمران خان کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کرلی ہے۔

پیپلز پارٹی کے ساتھ اس برے وقت میں اس سے زیادہ ستم ظریفی کیا ہوگی کہ مشہور ماڈل ایان علی کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں ان کے وکیل سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ اور سابق چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک ہیں، جو کہ مختلف کیسز میں آصف علی زرداری کا دفاع بھی کرچکے ہیں۔

دوسری طرف متحدہ بھی آئے روز ستاروں کی گردش کا نشانہ بن رہی ہے۔ کبھی سندھ رینجرز کے چھاپے میں نائن زیرو سے مطلوب دہشتگرد اور بھاری اسلحہ برآمد ہوتا ہے، اور کبھی بی بی سی کی ڈاکیومینٹری میں متحدہ پر ہندوستان سے مالی امداد لینے کے الزامات لگائے جاتے ہیں، جس پر ہمیشہ کی طرح متحدہ کی رابطہ کمیٹی کی جانب سے شدید ردّ عمل سامنے آتا ہے۔ مگر بی بی سی کے خلاف قانونی کاروائی نا کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی جاتی۔ بس اتنا کہا جاتا ہے کہ چونکہ کچھ دنوں میں منی لانڈرنگ کیس کی پیشی ہے، اس لیے متحدہ وقتی طور پر بی بی سی کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کرنا چاہتی۔

منی لانڈرنگ کیس کے علاوہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس بھی متحدہ کے حلق میں نوکدار ہڈی کی مانند پھنس گیا ہے۔ جس کے دو مطلوب افراد بھی پاک افغان بارڈر سے حراست میں لیے جا چکے ہیں، اور جن سے برطانوی حکومت کے افسران تفتیش کرنے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔

پیپلز پارٹی اور متحدہ کے خلاف کارروائیوں کے علاوہ کچھ دیگر وجوہات کی وجہ سے بھی ملک کا سیاسی ماحول گرم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جیسے وزیٹنگ انقلابی ڈاکٹر طاہرالقادری بھی کینیڈا سے پاکستان یاترا کے لیے آن پہنچے ہیں۔ اس کے علاوہ 2013 کے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی بھی مکمل ہونے کو ہے۔

پیپلز پارٹی اور متحدہ کے خلاف کارروائی، ڈاکٹر طاہرالقادری کا وطن واپس آنا، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی تحریک انصاف میں شمولیت اور جوڈیشل کمیشن کی کاروائی مکمل ہونا۔ کیا یہ سب ایسے اشارے نہیں جو کہ مستقبل میں بدلتے اور کروٹ لیتے سیاسی حالات کا عندیہ دے رہے ہیں؟ خاص طور پر مولانا طاہرالقادری کی واپسی اور پیپلز پارٹی کے اراکین کی تحریک انصاف میں شمولیت، تھرڈ ایمپائر کا نیا پلان آنے کا اشارہ تو نہیں؟

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

MUHAMMAD AYUB KHAN Jul 06, 2015 03:56pm
aagey dekheyN aagey kiya hota hey

کارٹون

کارٹون : 7 اپریل 2025
کارٹون : 6 اپریل 2025