• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm

کیا ہم تعلیم پر بات بھی نہیں کرنا چاہتے؟

شائع July 3, 2015
نظام تعلیم کی مکمل سہولیات اور معیار تعلیم و نصاب یکساں نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تشدد اور نفرت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ — ماہ رخ منصور
نظام تعلیم کی مکمل سہولیات اور معیار تعلیم و نصاب یکساں نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تشدد اور نفرت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ — ماہ رخ منصور

ہمارے معاشرے میں عوام کا سب سے پسندیدہ موضوع سیاست ہے۔ ہر شخص سب سے زیادہ دلچسپی سیاست پر بات کرنے میں لیتا ہے۔ ہم بس، ٹرین، ہوائی جہاز یا جس بھی چیز میں سفر کر رہے ہوتے ہیں ہمارے ساتھ بیٹھا ہوا شخص جس چیز پر خوشی سے بات کرنے پر آمادہ ہے، وہ سیاست ہے۔ صرف چند تعارفی جملوں کے بعد گفتگو کو اس مہارت سے سیاست کی طرف موڑتے ہیں کہ انسان ہکا بکا رہ جاتا ہے۔

کوئی ایک ماہ پہلے میرا ایک کام کے سلسلے میں لاہور جانا ہوا۔ واپسی پر مجھے ٹرین میں سیٹ نہیں مل رہی تھی تو جاتے ہوئے ٹرین کے مینیجر کی پیشکش یاد آئی کہ جناب اگر کہیں سیٹ نہ ملے تو مجھ سے رابطہ کیجیے گا، میں آپ کو دلوا دوں گا۔ میں نے سوچا کیوں نہ آزما لیا جائے۔ میں نے انہیں فون کیا کہ بھئی شالیمار میں سیٹ نہیں مل رہی اور بکنگ افسر کہہ رہے ہیں کہ تمام سیٹیں بک ہو چکی ہیں۔ آگے سے جواب آیا "سر آپ فکر نہ کریں اور پلیٹ فام کی طرف چل پڑیں، وہاں شالیمار کے آتے ہی اس میں موجود مینیجر سے میری بات کروائیے گا۔"

میں پلیٹ فارم پر پہنچا تو چند منٹوں کے بعد ٹرین آ گئی۔ میں مینیجر سے ملا اور اس کی بات کروائی تو انہوں نے میرے لیپ ٹاپ کا بیگ میرے ہاتھ سے لیا اور کہا "سر آپ آئیے۔" بغیر ٹکٹ میں ٹرین کی بزنس کلاس میں سوار ہو گیا۔ ٹرین چل پڑی، تھوڑا آگے جا کر اس نے مجھے کہا "سر یہ لیجیے آپ کا ٹکٹ۔"

پڑھیے: جہاں تعلیم بھیک سے جیت گئی

ٹرین میں جس چیمبر میں مجھے سیٹ ملی اس میں ایک لاہور کی فیملی پہلے سے موجود تھی جو ایک میاں بیوی اور ایک نوجوان بیٹے پر مشتمل تھی۔ پہلے تو انہوں نے مجھے منہ نہیں لگایا۔ خیر تھوڑا آگے چل کر بزرگ صفت شخص نے مجھ سے پوچھا بیٹا آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا جی میں ایک فری لانس صحافی ہوں، ڈان اور چند ایک دیگر کے لیے کالم و بلاگ لکھتا ہوں۔ انہوں نے پٹاخ سے سوال کیا، ایک تو صحافی، اوپر سے فری لانسر، گزارا کیسے ہوتا ہے؟ میں نے ہنس کر جواب دیا بس ہو ہی جاتا ہے۔

حضرت نے چند منٹ کی گفتگو کے بعد رخ سیاست کی طرف موڑ لیا، اور خود ہی تجزیہ شروع کر دیا کہ سیاستدان ملک کو کھا گئے، پی آئی اے، ریلوے، اور اسٹیل مل کا بیڑا غرق کر دیا، صحافیوں کی بھی دیہاڑیاں لگ رہی ہیں سچ نہیں بولتے، چور اچکے، لٹیرے اور ڈاکو سیاست میں ہیں، ایسے میں صرف عمران خان ہی امید کی کرن ہیں، ملک میں حقیقی تبدیلی وہی لا سکتے ہیں اور انصاف وہی دے سکتے ہیں۔ میں نے کہا "جناب وہ اپنی بیٹی کو اپنا کر انہیں تو انصاف دے نہیں سکے، اٹھارہ کروڑ کو کیا انصاف دیں گے؟"

حضرت گرجے اور بولے کہ سب بکواس ہے، ان کی کوئی بیٹی نہیں ہے، انہوں نے خود بھی کہا ہے، یہ سب کرپٹ صحافیوں کی ان کے خلاف سازش ہے۔ اس کے بعد ایک لمحے کے لیے خاموش ہوئے اور میری طرف دیکھ کر بولے "کہیں آپ بھی پٹواری تو نہیں؟" (پٹواری سے مراد ن لیگی)۔ میں نے کہا میں پٹواری، جیالا، حق پرست، یا انصافی نہیں، بلکہ صرف ایک صحافی ہوں۔

طویل گفتگو کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ "پاکستان میں تعلیمی سہولیات اور نظام کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟" حضرت نے جواب دیا "دیکھیں بہت دیر ہو چکی ہے، اب ہمیں سونا چاہیے" اور بیگم کو حکم دیا کہ سونے کی تیاری کی جائے۔

پاکستان میں تعلیم پر بات کرنے میں بہت کم لوگ دلچسپی دکھاتے ہیں اور سنجیدگی سے تعلیم کے میدان میں درپیش مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ سیاستدان ہوں یا بزنس مین، سوشل ورکر ہوں یا ادیب، تعلیم کی طرف کم ہی توجہ دکھائی دیتی ہے۔

پڑھیے: ایک تعلیم دوست جاگیردار کی کہانی

اس وقت سندھ میں ہزاروں اسکول بند پڑے ہیں اور ایک کثیر تعداد ایسی اسکول عمارتوں کی ہے جو وڈیروں کی اوطاقوں کا روپ دھار چکی ہیں یا ان میں مویشی بندھے ہوئے ہیں۔ بچی کھچی خستہ حالی کی وجہ سے بند پڑی ہیں، اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں لینے کے عادی بن چکے ہیں، جدید نظام تعلیم ایک خواب بن چکا ہے، تعلیمی نظام میں تبدیلی اور جدّت کو وقت کا زیاں سمجھ کر محکمے سے علیحدہ کر رکھا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 15 ستمبر 2014 کو بلاول ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ہم نے سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی لگا دی ہے، اس سے قبل 21 فروری 2014 کو وزیرِ تعلیم نے سندھ اسمبلی میں اعتراف کیا تھا کہ سندھ میں 11,000 اسکول بند یا غیر فعال ہیں جن میں اکثریت پرائمری اسکولوں کی ہے۔ اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مقامی اثر و رسوخ کی وجہ سے اساتذہ گھوسٹ ہیں۔

ان تمام اعترافات اور تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود آج تک کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے غیر فعال اسکول فعال ہوں، یا گھوسٹ اساتذہ کو سزائیں دیں جائیں۔ سوشل میڈیا پر گھوسٹ اساتذہ کی نشاندہی اور واویلا کے بعد چند دن کے لیے محکمہ حرکت میں آیا اور جیسے جیسے سوشل میڈیا پر مہم ٹھنڈی ہوتی گئی، ویسے ویسے محکمے کے غبارے سے بھی ہوا نکلتی گئی۔ ہم قوم کو ترقی کے بجائے جہالت کے اندھیروں میں جھونک رہے ہیں۔

نظام تعلیم کی مکمل سہولیات اور نصاب میں یکسوئی کے ساتھ ساتھ معیار تعلیم یکساں نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تشدد اور نفرت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں روزانہ سیاسی بیانات پر پروگرامز ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے میں ہم مہارت رکھتے ہیں، سازشوں اور افواہیں پھیلانے کے جدید گُر ہمارے پاس موجود ہیں، مگر ہم نے نظام تعلیم کی بہتری پر کوئی بات نہیں کرنی۔

مزید پڑھیے: تعلیم یافتہ دہشتگرد ملک کے لیے بڑا خطرہ؟

پورا ہفتہ ہماری ٹی وی اسکرینوں پر سیاسی پروگراموں کی یلغار نظر آتی ہے، مگر ہم اپنے فرض کو بھول چکے ہیں، عوام کے ایشوز پگڑیاں اچھالنا نہیں، بلکہ تعلیم، صحت، اور روزگار ہیں، مگر ان پر پروگرام نہیں کریں گے کیونکہ ریٹنگز کی بھوک نے ہمیں اندھا کر دیا ہے۔

اگر ہم کم از کم ہر چینل پر ہفتے میں ایک بھی پروگرام تعلیم پر کریں اور اگلے ہفتے اس کا فالو اپ لیں تو یقینی طور پر ہماری تعلیم بہتری کی طرف جائے گی۔

اس ملک اور معاشرے کی ترقی تعلیم سے ہی ممکن ہے، اس لیے اگر اس ملک میں سب سے زیادہ کسی محکمے پر کام کرنے کی ضرورت ہے تو وہ محکمہ تعلیم ہے۔ تعلیمی سرگرمیوں کا انعقاد، یکساں نظام تعلیم اور تعلیمی نظام میں جدّت اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس پر سب سے زیادہ کام کیا جانا چاہیے۔

جس دن اس ملک اور معاشرے کی دیواریں تعلیم پر کھڑی کی جائیں گی اس دن ہمارے ملک اور معاشرے سے دہشتگردی، انتہاپسندی، فرقہ واریت، کرپشن، لوٹ مار سمیت دیگر ناسوروں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔

تنویر آرائیں

لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرtanvirarain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024