انتقامی سیاست کے شکار حسین شہید سہروردی
10 ڈاؤننگ اسٹریٹ اور 10 وکٹوریہ روڈ، یہ پتے ہیں دو گھروں کے جس میں سے ایک میں اب بھی وزیرِ اعظم رہتا ہے جبکہ دوسرے کا درجہ اب ایک ریاستی مہمان خانے کا ہے۔ 10 وکٹوریہ روڈ (حالیہ عبد اللہ ہارون روڈ) کراچی میں ہے جو تقسیمِ ہند کے بعد وزرائے اعظم کی سرکاری رہائش گاہ تھی۔ بعدِ ازاں اسے ریاستی مہمان گاہ کا درجہ دے دیا گیا، جبکہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ آج بھی برطانیہ کے وزرائے اعظم کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔
ان دونوں رہائش گاہوں میں 10 کا حرف مشترکہ ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے یا کچھ اور، اس پر تحقیق ہو سکتی ہے۔ لیکن فی الحال ہمارا موضوع 10 وکٹوریہ روڈ ہے جہاں پاکستان کے وزرائے اعظم نے اپنے دورِ اقتدار کے شب و روز گزارے۔ ہم نے اپنے اس بلاگ کا آغاز 10وکٹوریہ روڈ میں رہائش پذیر حُسین شہید سُہروردی سے کیا ہے۔ دیگر وزرائے اعظم کا ذکر بعد میں بیان کریں گے۔
عبداللہ ہارون روڈ پر 10 وکٹوریہ روڈ — اختر بلوچ |
عبداللہ ہارون روڈ پر 10 وکٹوریہ روڈ — اختر بلوچ |
حُسین شہید سہروردی ایک مختصر عرصے تک پاکستان کے وزیراعظم رہے۔ گو کہ اُس وقت کے صدرِ پاکستان ان کے سخت خلاف تھے لیکن چونکہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی، اس لیے صدر کو یہ کڑوی گولی نگلنی پڑی۔ بیگم شائستہ سہروردی اکرام اللہ حسین شہید سہروردی کی سوانح عمری میں رقمطراز ہیں کہ چوہدری محمد علی کی وزارت کے خاتمے کے بعد صدر کو مجبور کیا گیا کہ وہ شہید کو وزیراعظم کی حیثییت سے قبول کریں، گو کہ اس سے قبل صدر اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ ایسا صرف ان کی لاش پر ہی ممکن ہے۔ لیکن حالات نے انہیں اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کیا۔
یہ تو تھے شائستہ سہروردی اکرام اللہ کے خیالات۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ایسے بے شمار انکشافات کیے ہیں جو سہروردی صاحب کی ذاتی اور سیاسی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں، جن سے تقسیمِ ہند اور پاکستان کے سیاسی میدان میں اُکھاڑ پچھاڑ اور انتقامی کارروائیوں سے آگہی ہوتی ہے۔
بیگم شائستہ کی بات یقیناً درست ہوگی لیکن وزیرِ اعظم بننے کے بعد سہروردی شہید اور اسکندر مرزا کے تعلقات کتنے خوش گوار ہوگئے تھے، اس کا اندازہ نعیم احمد خان، محمد ادریس، اور عبدالستار کی یادداشتوں پر مرتب کتاب ”پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم“ کے صفحہ نمبر 83 اور 84 پر تحریر اس متن سے ہوتا ہے:
”سہروردی صاحب کھلانے پلانے کے بہت شوقین تھے، ان کے دور میں وزیرِ اعظم ہاؤس میں بہت زیادہ دعوتیں ہوتی تھیں۔ ان دعوتوں میں اکثر ڈیڑھ سو، دو سو کے قریب لوگ شامل ہوتے تھے۔ ان پارٹیوں میں شراب بے دریغ استعمال کی جاتی تھی، لیکن سہروردی صاحب جب تک وزیراعظم کی حیثیت سے وزیراعظم ہاؤس میں رہے، انہوں نے شراب نہیں پی۔ سنا تھا کہ وہ بہت شراب پیتے تھے، لیکن کسی بیماری کی وجہ سے ڈاکٹروں کے مشورے پر شراب پینا بند کر دی تھی۔ سہروردی صاحب اکثر بیگم اسکندر مرزا کے ساتھ ڈانس کرتے تھے۔"
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اتنے اچھے اور دوستانہ تعلقات ہونے کے باوجود اسکندر مرزا نے سہروردی صاحب کو استعفیٰ دینے پر کیوں مجبور کیا۔ ان کے دوستانہ تعلقات کی وسعت کے بارے میں کتاب کے مرتبین مزید وزیرِ اعظم ہاؤس کے چپڑاسی مجید کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ایک رات تو یہ رنگ جما کہ ناچتے ناچتے رات کے دو بج گئے، اور شراب کے دور پر دور چلتے رہے۔ بالآخر اسکندر مرزا اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گورنر جنرل ہاؤس چلے گئے، اور دوسرے مہمان بھی چلے گئے۔
سہروردی صاحب اپنے کمرے میں جا چکے تھے۔ جب مجید چپڑاسی نے ہال سے متصل کمرے کا پردہ اُٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا ایک عورت صوفے پر بے ہوش پڑی ہے۔ مجید چپڑاسی آگے گیا تو پہچان گیا کہ یہ اسکندر مرزا کی بیگم ہیں۔ اس نے سہروردی صاحب کو جا کر اطلاع دی کہ حضور بیگم اسکندر مرزا تو یہیں رہ گئی ہیں۔ سہروردی صاحب آئے، اور کسی طرح بیگم اسکندر مرزا کو خود تھام کر گاڑی تک لے آئے، اور پھر خود ہی گاڑی چلا کر بیگم اسکندر مرزا کو گورنر جنرل ہاؤس چھوڑ آئے.
حسین سہروردی ایک بڑے زیرک سیاست دان تھے۔ جناح صاحب خود چاہتے تھے کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہوں اور مشترکہ ہندوستان کے صوبے بنگال میں مسلم لیگ کی قیادت سنبھالیں۔ وہ جناح صاحب کی توقعات پر پورا اترے۔ سیاسی میدان میں مصروفیات کے ساتھ وہ ایک خوش مزاج اور بزلہ سنج انسان بھی تھے۔ مشترکہ ہندوستان اور بعد ازاں پاکستان کے معروف فلمی ستارے کمال نے اپنی سوانح عمری ”داستانِ کمال“ میں لکھا ہے کہ:
”کراچی میں پہلے اور شاید آخری صدارتی ایوارڈ کا اعلان ہوا۔ کراچی اسٹیشن پر بھی ہمارا زبردست استقبال ہوا۔ ہم سب لوگ میٹروپول ہوٹل میں ٹھہرائے گئے۔ اگلے روز سب کو ایوانِ صدر میں بلایا گیا۔ اس وقت کے وزیرِ اعظم سہروردی مرحوم نے فلم والوں سے بہت اچھی طرح ملاقات کی۔ انہیں فوٹو گرافی کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے خود اپنے کیمرے سے فلم اسٹارز کی تصویریں بنائیں۔“
حسین شہید سہروردی ایک انتہائی قابل وکیل تھے۔ مقدمات کے دوران وہ صرف دلائل سے ہی کام نہیں لیتے تھے، بلکہ اشعار سے بھی کام لیتے تھے۔ایسا ایک واقعہ اس وقت پیش آیا جب ان کے خلاف ایبڈو کے تحت قائم کیے جانے والے ایک مقدمے میں وہ اپنی پیروی خود کر رہے تھے۔ شائستہ سہروردی اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ:
”عدالتوں میں ان کی کارکردگی مثالی ہوتی تھی۔ جن مقدمات کی سماعت میں وہ پیش ہوتے تھے، لوگ عموماً ان کے دلائل سننے کے لیے عدالت آتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ اپنے خلاف ایبڈو کے تحت مقدمے کی پیروی کر رہے تھے۔ وکیلِ استغاثہ چوہدری نذیر احمد وقت بہ وقت اور بلا وجہ انہیں پریشان کر رہے تھے۔ سہروردی ان کی ان حرکتوں کو نظر انداز کر رہے تھے۔ ایک موقعے پر اچانک انہوں نے کہا:
”ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے،
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے“
سہروردی صاحب ایک ماہر قانون دان تھے۔ سیاست ان کا پیشہ نہ تھا۔ روزگار کے لیے وکالت کرتے تھے۔ لیکن پاکستان کی انتقامی سیاست نے ہر دور میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ عموماً سب سے پہلے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ معتوب فرد کے اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے اور اسے اس حد تک مجبور کیا جائے کہ اس کی روزی روٹی کا حصول اس کے لیے مسئلہ بن جائے۔ سہروردی صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ شائستہ سہروردی اکرام اللہ سہروردی کی سوانح عمری کے صفحہ نمبر 74 پر لکھتی ہیں کہ:
”انہوں نے اپنی وکالت دوبارہ سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت نے انہیں روکنے کے لیے اپنی سازشوں میں اضافہ کر دیا۔ کراچی اور لاہور کی عدالتوں کو یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ وکیل کی حیثییت سے انہیں رجسٹر نہ کریں۔ یہ منٹگمری (ایک چھوٹا سا شہر جسے اب ساہیوال کے نام سے جانا جاتا ہے) کی ایک عدالت تھی جس نے حسین شہید سہروردی کو وکیل کی حیثیت سے قبول کیا۔“
حسین شہید سہروردی چو این لائی کے ساتھ۔ |
سہروردی صاحب سے زبردستی استعفیٰ لینے کے بعد سرکاری افسران میں ایک ایسا طبقہ بھی تھا جو اس کے خلاف تھا، اور ان کی ہمدردیاں مکمل طور پر حُسین شہید کے ساتھ تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ کسی طور یہ معاملہ عوامی عدالت تک پہنچایا جائے۔ بیوروکریسی میں آج بھی ایسے لوگ ہیں جو کسی نہ کسی حکومت کے وفادار ہوتے ہیں۔ لیکن حکمرانوں پر برا وقت آتے ہی وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں یا سیاسی وفاداریاں تبدیل کر لیتے ہیں۔ معروف سیاست دان اور کاروباری شخصیت بیگم سلمیٰ احمد اپنی خود نوشت سوانح عمری میں اس حوالے سے لکھتی ہیں کہ:
”آفتاب احمد خان (ماموں صاحب) حسین شہید سہروردی کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔ جب ایوب خان نے عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد مارشل لاء نافذ کیا، تو سول سروس کے ایک گروہ نے ایک دوسرے سے رابطے استوار کیے اور طے کیا کہ مارشل لاء کے نفاذ کے خلاف عوامی رائے بنائی جائے۔ انہوں نے اس حوالے سے پوسٹرز بھی چھپوائے جو پورے کراچی میں لگائے جانے تھے۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ یہ عمل انجام دیتے، راز فاش ہوگیا۔ پوسٹرز قبضے میں لے لیے گئے۔ منصوبہ سازوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں نمایاں انکل آفتاب تھے۔ ان کی جیل سے رہائی کے لیے بارہا کوششیں کی گئیں۔"
حسین شہید سہروردی پر ان کے مخالفین کا سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ انہوں نے بنگال میں فسادات کے دوران گاندھی جی سے ہاتھ ملایا اور کلکتہ میں گاندھی جی کے ساتھ رہائش اختیار کی، جبکہ گاندھی جی چاہتے تھے کہ وہ مشترکہ بنگال کے شورش زدہ علاقے نوا کھلی کا دورہ کریں جہاں اس وقت کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔
سہروردی کا خیال تھا کہ گاندھی جی کا نوا کھلی کا دورہ ان فسادات کو مزید بڑھاوا دے گا، اور اگر وہ اس کے بجائے کلکتہ میں رہیں اور فسادات ختم کرنے کی کوشش کریں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ سہروردی نے جب اپنا یہ منصوبہ گاندھی جی کو پیش کیا تو گاندھی جی کا مؤقف تھا کہ وہ اس شرط پر کلکتہ ٹھہر سکتے ہیں کہ سہروردی بھی ان کے ساتھ وہاں رہیں۔ سہروردی نے اس سے اتفاق کیا اور پھر آہستہ آہستہ ان دونوں رہنماؤں کی کوششوں سے ہندو مسلم فسادات ختم ہوگئے۔
شائستہ سہروردی اکرام اللہ سہروردی کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ جب انہوں نے حسین شہید سہروردی سے سوال کیا کہ یہ تجربہ کیسا رہا؟ تو ان کا جواب تھا:
”یہ سب ٹھیک تھا لیکن کھانا بہت بد ذائقہ تھا۔ لیکن اس دورانیے نے خطرات کو کم کیا۔ آہستہ آہستہ ماحول تبدیل ہوتا گیا اور یہ معجزہ ایک مختصر عرصے میں برپا ہوگیا۔ کلکتہ کے مسلمان اور ہندو گو کہ مختصر عرصے کے لیے یکجا ہوگئے اور 15 اگست کو آزادی کا سورج ایک پُرامن ماحول میں طلوع ہوا۔“
حسین شہید سہروردی کی پاکستان میں آئین ساز اسمبلی کی نشست اس بنیاد پر خالی کر دی گئی کہ جو شخص تقسیمِ ہند کے بعد 6 ماہ کے اندر اندر پاکستان کے کسی علاقے میں رہائش اختیار نہیں کر پاتا وہ اپنی نشست پر برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس قرارداد کے تحت شہید سہروردی نے کوشش کی کہ مشرقی پاکستان میں انہیں کوئی رہائش گاہ مل جائے۔ شائستہ اکرام اللہ کے مطابق وہ جون 1948 میں ڈھاکہ گئے لیکن ان کی آمد کے 24 گھنٹوں کے بعد انہیں ڈھاکہ بدری کا نوٹس دیا گیا۔ یہ نوٹس آئی جی ذاکر حسین کی ہدایات پر سٹی مجسٹریٹ نے ان سے وصول کروایا۔ یہ نہ صرف ڈھاکہ بدر کیے جانے کا نوٹس تھا بلکہ اس میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ آئندہ 6 ماہ کے لیے مشرقی پاکستان داخل نہیں ہو سکتے۔
پیر علی محمد راشدی اپنے کالموں کے مجموعے رودادِ چمن کے صفحہ نمبر 51 پر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
”شہید سہروردی مرحوم وہ شخص تھا جو بضد مشرقی پاکستان کو بنگال میں شامل کروانے کے لیے لڑ جھگڑ کر، لیجسلیٹرس کنونشن سے قرارداد منظور کروا کر مشرقی پاکستان کو بنگال میں لے آیا۔ بحیثیت وزیرِ اعلیٰ متحدہ بنگال اس نے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مسلمانوں کی اتنی خدمت اور حمایت کی تھی کہ وہاں کے ہندو آخر تک یہ زخم فراموش نہیں کر سکے۔ نہ صرف یہ، بلکہ پاکستان تحریک کے زمانے میں وہ سارا عرصہ مسلم لیگ بنگال کا جنرل سیکریٹری اور مسلم لیگ پارٹی کا روحِ رواں رہا۔
اس شخص کا کیا حال بنا؟ پہلے ”غدارِ پاکستان“ کے خطاب سے نوازا گیا، مسلم لیگ سے نکالا گیا، اور ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ وہ پاکستان میں داخل ہونے ہی نہ پائے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہاں کی نوکر شاہی کے نامزد گورنر جنرل مرحوم غلام محمد کو اپنے جوڑ توڑ کو مقبولِ عام بنانے کے لیے اسی سہروردی کے تعاون کی شدید ضرورت محسوس ہوئی، چنانچہ اس کو جنیوا سے بلا کر پاکستان کا وزیرِ قانون بنایا گیا اور ایک اور چکر میں اس کو کچھ مہینوں کے لیے وزیرِ اعظم بھی بننے دیا گیا۔ آخر میں ایوب خان کا دور آیا اور اسی وزیرِاعظم کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ”ایبڈو“ کے تحت سیاست کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔
اس قدر بے آبروئی کے بعد وہ غریب جان چھڑا کر ملک سے ہی باہر نکل گیا اور وہیں جا کر مرنا بھی منظور کر لیا۔ (حال ہی میں ان کی بیٹی بیگم اختر سلیمان کا اخباری انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں یہ راز کھولا گیا ہے کہ سہروردی مرحوم طبعی موت نہیں مرے تھے، مگر ان کو نوکر شاہی نے مروایا تھا)۔“
حسین شہید سہروردی کی وفات کی خبر 6 دسمبر 1963 کو ڈان میں شائع ہوئی۔ |
جنازے کے بعد راشد، بیگم اکرام اللہ، شاہدہ جمیل، بیگم اختر سلیمان، اور ایک خاندانی دوست۔ |
حسین شہید سہروردی کا انتقال 5 دسمبر 1963 کو جلا وطنی کے دوران بیروت کے ایک ہوٹل میں پراسرار حالت میں ہوا۔ ان کی موت کے حوالے سے کئی افواہیں زیرِ گردش رہیں، جبکہ سرکاری مؤقف یہی رہا کہ دل کے دورے کے باعث ان کی جان گئی ہے۔ پاکستانی سیاست کے لاتعداد رازوں کی طرح ان کی موت کا عقدہ بھی اب صرف متنازع اور ایک راز ہے، جو ہمیشہ کے لیے دفن ہوچکا ہے۔
تبصرے (12) بند ہیں