جب سمندر شہروں اور ملکوں کو نگل جائے گا
موسمیاتی تبدیلی، سمندری برف، گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا میں گلیشیرز کے پگھلاؤ کا عمل جاری ہے، یہ وہ عناصر ہیں جن کے باعث زمین کی حدت اور سمندری سطح میں اضافہ ہورہا ہے۔
یہ موسمیاتی تبدیلی موسمیاتی پیٹرن اور موسمی شدت کے واقعات سمیت بہت ساری صورتوں میں ظاہر ہوگی۔
1870ء سے اب تک دنیا بھر کے سمندروں کی سطح میں 8 انچ تک کا اضافہ ہوا ہے۔یہ تبدیلی نشیب میں واقع جزیروں کو پہلے ہی متاثر کررہی ہے۔
ان جزیروں پر آباد لوگوں کی بڑی تعداد بلندی پر واقع مقامات کی جانب منتقل ہورہی ہے یا یہ لوگ دیگر ملکوں کی شہریت حاصل کررہے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ اپنی زراعت کو تحفظ دینے کے لیے کاشتکاری کے نت نئے طریقے بھی دریافت کررہے ہیں۔
یہ دنیا کے انتہائی خوبصورت ممالک میں شامل ہے۔ ہر سال دنیا بھر سے سیاح یہاں پہنچتے ہیں۔ قریب 1200 جزائر میں بسا یہ ملک بھارت کے جنوبی سرے سے قریب 595 کلو میٹر دور ہے۔
مالدیپ جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرات کی زد میں ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے دنیا بھر کے ان شہروں کو بھی خطرہ لاحق ہے جو سمندری کنارے پر واقع ہیں۔ ان شہروں میں میامی، ایمسٹرڈم اور شنگھائی جیسے شہر شامل ہیں۔
اس سال فروری کے دوران سینیٹ کی ایک کمیٹی کو آگاہ کیا گیا تھا کہ اگر سندھ کے ساحلی علاقوں میں بڑھتی ہوئی سمندری مداخلت کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے تو بدین اور ٹھٹّہ 2050 تک جبکہ کراچی 2060 تک سمندر بُرد ہوجائیں گے۔
اس کے علاوہ خطرہ ہے کہ چھ سے لے کر دس جزائر پر آباد ممالک کا وجود بھی آب و ہوا کی تبدیلی سے ختم ہو سکتا ہے۔
حالانکہ مستقبل میں کیا ہو گا، فی الحال حتمی طور پر کچھ کہنا ناممکن ہے۔ بعض سائنسدانوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ سمندر کے پانی کی سطح بڑھنے کے باوجود بھی کچھ جزائر مکمل طور پر نہیں ڈوبیں گے۔ تاہم کچھ سائنسدانوں کی رائے ہے کہ ہم کتنی بھی کوششیں کیوں نہ کر لیں کچھ ممالک کا وجودمٹ جائے گا۔
سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ اگر کوئی ملک سمندر برد ہوجاتا ہے تو کیا ہوگا؟
کیونکہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا ہے، کہ کسی ملک کا وجود مٹ گیا ہو۔ اب تک ایسی صورت نہیں دیکھنے کو ملی ہے کہ جب پورے ملک کی آبادی کے پاس کوئی بنیاد نہیں ہو گی، نہ تو قانونی، نہ ہی ثقافتی اور نہ ہی اقتصادی۔
کولمبیا کے لاء اسکول کے مرکز برائے موسمیاتی تبدیلی کے ڈائریکٹر مائیکل گیررارڈکا خیال ہے کہ ’’اس وقت ایک نئی طرح کی بین الاقوامی شہریت کے دور کا آغاز ہوگا۔ تاہم میرا خیال ہے کہ سمندری جزائر پر آباد ملکوں کو اس صدی تک کچھ نہیں ہو رہا ہے۔‘‘
ایک سوال یہ بھی ہے کہ جب کئی ملک ڈوب جائیں گے تو کیا ان کی اقوام متحدہ کی رکنیت بھی اس کے ساتھ ہی ڈوب جائے گی۔
کیا ایسے ملکوں کے عوام کہاں جائیں گے؟ ان کی شہریت کا کیا ہوگا؟ کیا گرین گیس خارج کرنے والے لوگوں اور ممالک کے خلاف ان کا کوئی قانونی معاملہ بھی بنے گا؟
یہ سارے سوال آپس میں الجھے ہوئے ہیں اور ان کا جواب حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اگر جزائر پر آباد ملکوں کے سمندر برد ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تو دنیا بھر میں بحران کی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔
بنگلہ دیش، دریائے نیل کے ڈیلٹائی علاقے سمیت دیگر تمام جگہوں سے لوگوں کی بڑی تعداد کی نقل مکانی بھی دیکھنے میں آئے گی۔
مائیکل گیرارڈ کا ایک خدشہ تو یہ بھی ہے کہ شام اور افریقہ میں موجودہ صورتحال میں جس طرح سے لاکھوں افراد سیاسی اور اقتصادی طور پر نقل مکانی کے بعد کیمپوں کے سخت حالات سے دوچار ہیں، جزائر اور شہروں کے سمندر برد ہونے سے پیدا ہونے والا بحران اس سے بھی شدید تر ہوگا۔
ان کے مطابق یہ بحران 85 برسوں کے بعد ظاہر ہوگا۔ اس وقت ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے افراد کے مسائل پر کسی بھی طرح کا بین الاقوامی معاہدہ موجود نہیں ہے۔
یاد رہے کہ نومبر، 2014 میں نیوزی لینڈ کی ایک عدالت کے جج نے کرباتی جزیرے کے شہریوں کو ماحولیاتی بنیاد پر پناہ گزین کا درجہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ گزشتہ دو دہائی کے دوران آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کم سے کم 20 ایسے معاملے سامنے آ چکے ہیں۔
کرباتی ہوائی اور آسٹریلیا کے تقریباً درمیانی حصہ میں واقع ہے، اس کے 32 جزائر نشیبی جبکہ ایک کی سطح بلند ہے۔ جب سے اس کے جزائر کو سمندر نے نگلنا شروع کیا تو اس کی زیادہ تر آبادی اس ایک جزیرے پر منتقل ہوچکی ہے۔
بحر اوقیانوس میں تقریباً 34 لاکھ کلومیٹر کے دائرے میں پھیلے جزائر کے ملک کرباتی کے لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ کرباتی جمہوریہ کے ترجمان رمون رمون کہتے ہیں ’’سائنس تحقیق کے نتائج واضح ہیں، اگر بالفرض ترقی یافتہ ممالک کاربن گیس کا اخراج بالکل کم کر دیتے ہیں تو بھی 30 سے 35 سال کے بعد ہمارا جزیرہ ڈوب جائے گا۔‘‘
یہی وجہ ہے کرباتی کے صدر اینوٹے ٹانگ نے تندہی کے ساتھ آبادی منتقلی پر توجہ دینی شروع کردی ہے۔ ان کے پروگرام کے مطابق خاص طرز کی تربیت حاصل کرنے کے بعد کرباتی کے باشندوں کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں رہنے کی اہلیت حاصل ہوجائے گی، جس کے بعد میں وہ مکمل امیگریشن حاصل کرلیں گے۔ خود کرباتی کے صدر نے اسی خیال سے فجی کے جزائر میں زمین خریدلی ہے۔
کرباتی کے ترجمان رمون اس کے باوجود کہتے ہیں، ’’لیکن ہمیں اپنی شناخت کے ختم ہوجانے کا خطرہ لاحق ہے، لیکن ہمیں تیاری کرنی ہوگی تاکہ 50 سال بعد بھی کرباتی ملک قائم رہے۔‘‘
تاہم جب تک اقوام متحدہ ان ممالک کی شناخت کو تسلیم کرتا رہے گا، ان کے دو حروف والے کوڈ کا استعمال جاری رہے گا، اور بین الاقوامی بینکاری اور پاسپورٹ کی شناخت کام کرتی رہے گی۔
ایک این جی او ایکین کی تکنیکی خدمات کے ڈائریکٹر کم ڈیوس کہتے ہیں’’جب کسی ملک کا زمینی حصہ غائب ہو جائے گا، تب یہ ہمارے لیے بالکل نئی صورتحال ہوگی، لیکن ایسا بھی نہیں ہوگا کہ اس کو سنبھالا نہیں جاسکے ۔ اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل رہنے سے ان کی شناخت قائم رہے گی۔‘‘
تبصرے (3) بند ہیں